شبِ یلدا
زمانہ آج سال کی طویل ترین رات منارہا ہے
اک شور سا مچا ہوا ہے
کے لوگوں سال کی یہ واحد رات ہے جسنے طوالت اختیار کی ہو
جو اتنی لمبی ہے جیسے تارکول کی سیاہ سڑک بنا کسی موڑ کے اک اُجلی صبح کی طرف نکلتی ہے
مگر میں اس سیاہ رات کے فسوں میں کھوٸ سوچتی ہوں کے فقط سال میں اک شب، شبِ یلدا تو نہیں میں اس شب یلدا کو پہچانتی ہوں
تمہارے بعد میری زندگی کی ہر شب، شبِ یلدا ہے
جسکی طوالت صدیوں پر مشتمل رہی ہے
جسے کاٹتے کاٹتے میں نے خود اونگھتے کبھی گرتے دیکھا ہے
اپنی ہتھیلیوں پر زندگی کو سرد پڑھتے دیکھا ہے
جن ہتھیلیوں پر فرصت کے لمحوں میں زندگی کے حساب کتاب ہوا کرتے تھے۔۔
وہ انگلیاں جو کسی پیشانی پرصراط کھینچتی تھیں۔ تو زندگی بخت کی صورت روشن ہوجایا کرتی تھی
اب وہ انگلیاں شب کی گہراٸ کو کھودتے کھودتے شل ہوچکی ہیں
اور زندگی کی رمق کھو چکی ہیں
اور اس تاریک شب میں تمہارے لمس کی وہ حرارت جو ہمارے بیچ آنے والی پہلی شب یلدا پر میری انگلیوں کے پُوروں پر آن ٹھہری تھی۔
اب اپنی سُن ہوتی انگلیوں پر کھو چکی ہوں اور یہ تمہارے بعد میری زندگی کا آخری خسارہ ہے۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment