کب پانی گرنے سے خوشبو پھوٹی ہے
مٹی کو بھی علم ہے بارش جھوٹی ہے
اک رشتے کو لاپروائی لے ڈوبی
اک رسی ڈھیلی پڑنے پر ٹوٹی ہے
ہاتھ ملانے پر بھی اس پہ کھلا نہیں
یہ انگلی پر زخم ہے یا انگوٹھی ہے
اُس کا ہنسنا ناممکن تھا یوں سمجھو
سیمنٹ کی دیوار سے کونپل پھوٹی ہے
نوح سے پوچھو پیچھے رہ جانے والو !
کشتی چُھوٹی ہے کہ دنیا چُھوٹی ہے
ہم نے ان پر شعر نہیں لکھے حافی
ہم نے ان پیڑوں کی عزت لُوٹی ہے
No comments:
Post a Comment