Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Monday, June 20, 2016

فادر ڈے



کہتے ہیں کہ بھرے پیٹ والوں کو عجیب عجیب باتیں سوجھتی ہیں۔ نئے نئے کپڑے، کاریں، شوق اور انجوائے منٹ۔ ایسی ہی انجوائے منٹ بارش بھی ہے۔ لوگ بڑا انجوائے کرتے ہیں کہ بارش ہورہی ہے، پکوان بنتے ہیں، پارٹیاں ہوتی ہیں، موج مستی ہلا گُلا ہوتا ہے۔ آج سے چند سال پہلے تک میری کیفیت بڑی عجیب سی ہواکرتی تھی بارش ہونے پر۔ دل کرتا تھا کہ بارش ہوجائے، خوب ہوا چلے اور خوب بارش ہو تاکہ موسم ٹھنڈا ہوجائے اور پوڑے پکیں ۔ لیکن پھر مجھے ابو کا خیال آتا تو دل چور ہوجایا کرتا۔ ابوکی جاب ویسے توگھر سےزیادہ دورنہیں تھی لیکن بارش اور وہ بھی اندھی کے ساتھ تو ہمیں ابّو کا اور ابو کو ہمارا خیال رہتا جس کی وجہ سے وہ اپنی جاب چھوڑ کر گھر آجایا کرتے تھے کے بچے پریشان نہ ہوں .


ان دنوں طریقہ کار بہت سادہ سا تھا۔ ہم گھر سے سالن اور روٹیاں لے کرانھیں ان کے آفس دینے جاتے تھے، اس بہانے ان کے ساتھ بیٹھنا اورانکا خوبصورت آفس جہاں بہت سارے درخت اور بے تحاشا قسم کے پھول تھے دیکھنے کا شوق ہمارا پورا ہوجایا کرتاتھا. مین سپر ہائی وے کے گنجان جنگل میں گھر ہونے کی وجہ سے بیماری کے وقت ہمیں شہر کی طرف لے جانا ، اکثر اوقات وین خراب ہونے کی صورت میں انکا سکول میں ہمکو ڈھونڈنا اور شام تک گھرنہ لوٹنا بہت ساری یادیں جو میرے ذہین سے کبھی نہیں نکل نہیں سکتی شاید میں وہ سب لکھ ہی نہ پاؤں خیرکچھ حادثات زندگی کا حصّہ ہوتے ہیں اوراٹل ہوتے ہیں جنکا روکنا انسان کے ہاتھ نہیں ہوتا ، ہم بھی ان حادثات کی زد میں آگے آج انہیں بہت کثرت سے یاد کیا چونکے آج فادر ڈے تھا ان تمام دنوں سے کوئی بڑھ کےتونہیں کہا جاسکتا کیوں کے آج سب دوستو نے اپنے والد کےساتھ یہ دن منایا اور کچھ نے تصویر بھی اپلوڈ کی سوشل میڈیا پہ تو میرے لئے ایک تکلف سے کم نہیں تھا 


ایک ہفتہ پہلے ایک عزیز تشریف لاے اورانہونے میرے والد کی انتقال کی خبر سنائی جوکے دل نہیں مانا اس کے بعد اور لوگ آ تے چلے آے اورمیرا دل چا ہا کے ڈھیرسری گالیوں کے ساتھ انہیں الله حافظ کہوں لیکن اس کا اختیار میرے ہاتھ میں نہیں شور ڈالتی گھر میں تو سارے مجھ پہ حاوی ہوجاتے تو دل میں ہی انکو نیست و نابوط ہوجانے کی بد دعا دیتی رہی بہت سوچ بچار کے بعد میں آخر کار اس کہانی کے لکھنے اور ترتیب دینے والے تک پہنچ ہی گیی بزرگ کہتے ہیں ہاتھوں سے لگائ ہوئی دانتوں سے کھولنی پڑتی ہے تو یہ مت سوچو جو تم نے کسی کے ساتھ کیا وہ تمہارے ساتھ نہیں ہوسکتا 


. الله میرے باپ کو صحتمند زندگی دے اور دشمنو کو دنیا میں بھی جہنم دکھاۓ 



۔ میں نے یہ سب اس لیے لکھا کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ کل کو اگر میں اگر کامیابی کی کسی منزل پہ گامزن ہوجاؤں عام الفاظ میں کسی لائق ہو جاؤں تو میرے لکھے ہوئے الفاظ ہی مجھے میری اصل کا پتا دیں، میں کہیں بھول نہ جاؤں کہ میرے ماں باپ نے مجھے کیسے پالا تھا، میرا بچپن کیسے گزرا تھا اور ہمارے حالات کیسے گزرے اور وہ رشتے دار الله انھیں ہدایت دے اور انکی آنے والی نسلوں پہ رحم فرماے اور مجھ پر رب کریم کے کتنے احسانات ہیں۔


یا اللہ تیرا شکر ہے، تیری رحمت، تیرا کرم میں تیری رحمت کی محتاج تیرے کرم کی امیدوار۔ میری ہر سانس، میرا ہر بال تیری رحمت تیرے کرم کا منتظر۔ میرا ہونا ہی تیری مجھ پر رحمت کی نشانی ہے مولا، ورنہ میری کیا اوقات میرے مالک۔


یا اللہ تیرا شکر ہے




No comments:

Post a Comment

')