میرے بچے بہت ہی بڑے ہوگئے ہیں۔کئی سال مجھ سے پوچھتے رہے بابا آپ عید کے دن کمرے میں کیوں بند رہتے ہیں۔نئے کپڑے پڑے رہتے ہیں آپ پہنتے کیوں نہیں۔شام کو جو لوگ ملنے آتے ہیں آپ ان کے ساتھ بیٹھ کے ہنستے کیوں نہیں۔صرف پانچ منٹ رسمی سی بات چیت کر کے کیوں اٹھ جاتے ہیں۔بابا عام دنوں میں تو آپ اتنا ہنستے ہیں مگر عید کے دن آپ کا چہرہ اسپاٹ کیوں ہوتا ہے۔
کئی عیدیں گذر گئیں اب بچوں نے مجھ سے پوچھنا چھوڑ دیا ہے۔البتہ ایک روائیت ضرور برقرار ہے۔صبح وہ ایک ایک کر کے میرے کمرے میں آتے ہیں۔سلام کرتے ہیں اور میں انھیں پہلے سے بنا کر سرہانے رکھے لفافے میں سے کوئی ایک پکڑا دیتا ہوں۔مجھے معلوم ہے کہ یہ غیر مناسب رویہ ہے۔مجھے اپنے لیے نہیں تو اپنے بچوں کے لیے ضرور عید کے دن وہ سب کرنا چاہیے جو وہ کہتے ہیں۔مگر میں کیا کروں۔عید کے دن وہ بچہ کہیں سے میرے سامنے آ کے کھڑا ہوجاتا ہے اور پھر خالی خالی نظروں سے چاروں طرف وہ سب ڈھونڈتا رہتا ہے جو اب کہیں نہیں۔
ہاں وہ کلدار ایک روپے کا سکہ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ہر عید پر میں اسے الماری سے نکالتا ہوں اور دیر تک الٹتا پلٹتا رہتا ہوں اور پھر دروازے پر دستک سنتے ہی تکئیے کے نیچے چھپا دیتا ہوں۔
No comments:
Post a Comment