کافی دنوں جیا ہوں کسی دوست کے بغیر"
اب تم بھی ساتھ چھوڑنے کو کہہ رہے ہو ، خیر
کب سے ترے دیار میں ہوں میں ترے بغیر
مجھ سے ہے آسماں کو خدا واسطے کا بیر
'' یوں زندگی گزار رہا ہوں ترے بغیر ''
جیسے کرے خزاں میں کوئی گلستاں کی سیر
باندھو صفحیں نمازِ جماعت کے واسطے
میں کون اے شیوخِ حرم پیش امامِ دیر
جاتے ہیں داغ صحبتِ شب کا لیے ہوےٓ
اچھا ، جو ہو سکا تو کل آئیں گے ، شب بخیر
عقبٰی کی زندگی کا خدا حافظ اے ندیم
ہم تو منا رہے ہیں اسی زندگی کی خیر
تاحال ہو سکے نہ ہم آہنگ سازِ دہر
کانوں میں آرہی ہے ابھی اک صدائے غیر
اخلاقِ طبع یار تجھے ماننا پڑا
ملنا اُسی تپاک سے وہ خویش ہوں کہ غیر
جو بھی نگاہ اُٹھتی ہے وہ میکدہ بدوش
اے نرگسِ سیاہ تری نیتیں بخیر
تقدیرِ حسن و عشق جدائی ہے ، الوداع
ہے زندگی اگر تو کبھی پھر ملیں گے خیر
راہیں پکارتی ہیں کہ صاحب پرے پرے
شعلے بچھے ہوئے ہیں دلوں کے بچا کے پیر
اس قرب سے تو دردِ فراقؔ اور بڑھ گیا
'' گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر ''
No comments:
Post a Comment