Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Friday, February 16, 2018

رحمت کی ناقدری

 

 

پہلی بیٹی کی پیدائش پر پہلا تھپڑ اس کے منہ پر لگا تب اسے احساس ہوا کہ ایک خوبصورت انسان یکا یک حیوان کیسے بن جاتا ہے ۔سرخو سفید رنگت اور چمکتے  دمکتے روشن چہرے کے اندر بد صورت خیالات کی حکمرانی تھی۔ وہ سوچ کی پر خاروادی میں اتر گئی۔۔

ہاجراں اور شیرخان کی شادی دو سال قبل دونوں خاندانوں کی باہمی رضامندی سے بہت دھوم دھام کے ساتھ نیک خواہشات اور حسین خوابوں کو آنکھوں میں سجاتے ہوۓ کی گئی تھی۔ جہیز بھی خوب تھا اور ادھر شیر خان کے والدین نے جھی کوئ کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ لکین حسین خواب سوچ کی بھیانک چٹان سے پکرا کر کرچی کرچی ہو چکے تھے ۔ امن ، سکون، راحت اور سب کی کایا پلٹ گئی تھی اور ہنستی مسکراتی  زندگی میں تلخیوں کے بھیانک ساۓ لہرا رہے تھے ۔ عہدو پیمان، پیار و محبت کے سب دعوے کچھ ہی عرصے میں کتنے خام ثابت ہوۓ تھے۔

شیر خان ابھی تک سرخ سرخ آنکھوں  سے روتی ہوئ فاطمہ کو گھور رہا تھا جیسے اس دنیا میں آکر اس معصوم سے کوئ بہت بڑا  گناہ سرذد ہوگیا ہو۔

اسی طرح دن گزرتے رہے ۔ ًشیر خان نے کبھی بیٹی کو محبت بھری نگاہوں سے ن دیکھا۔

باپ کے جھڑکنے اور ڈانٹنے پر وہ رو پڑتی  اور آواز میں ایک احتجاج ہوتا ، فریاد ہوتی جسے ماں کی مامتا ہی سمجھ سکتی تھی۔

" چپ کرتی ہو یا دوں ایک ہاتھ". آج بھی شیر خان نے اس پر ہاتھ اٹھایا تھا۔ اس وقت ہاجراں غصہ سے بھپرے ہوۓ طوفان کے سامنے دیوار بن کے کھڑی ہوگئ ۔اس کے اندر شیرنی جیسی مزاحمت پیدا ہوگئ تھی۔ شیر خان نے ہاتھ جھکا لیا  لیکن زبان کی درشتگی میں کوئ فرق نہیں آیا۔

اگر دوبارہ تم نے لڑکی کو جنم دیا تو مجھ سے برا کوئ نہ ہوگا۔ مجھے لڑکیوں کے وجود سے سخت نفرت ہے۔ یہ ایک نہ ایک دن باپ کا اٹھا ہوا سر ضرور جھکا دیتی ہیں۔ ساری محنت پر پانی پھیر دیتی ہیں۔۔ ساری عزت داؤ پر لگ جاتی ہے ۔ شیر خان غیض و غضب کے علم میں بولتا ہی چلا گیا۔

میرے سرتاج یہ کسی عورت کے اختیار میں نہیں کہ وہ اپنک کوکھ سے لازمی طور  پر لڑکے کو ہی جنم دے۔  یہ فیصلے زمین تر نہیں آسمانوں پر رب جلیل کے حکم سے ہوتے ہیں۔ ہمارے مذہب بلکہ دین اسلام میں بیٹی کو باعث رحمت قرار دیا گیا ہے ۔ فاطمہ ہمارے حضور صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی کا نام تھا۔ ہاجراں نے اپنی سمجھ کے مطابق تقریر کرتے ہوۓ کہا۔ وہ میٹرک پاس تھی اور دین و فقہہ کے متعلق بھی کافی معلومات رکھتی تھی ۔ شیر خان بھی میٹرک تک ہی پڑھ سکا تھا۔ ہاجراں کی باتیں سن کر اسکی آتش بان آنکھیں جھک گئیں۔ لیکن اس نے ہاتھ اٹھاتے ہوۓ سخت لہجہ میں کہا

میں کچھ نہیں سننا چاہتا ۔ دین اور دنیا میں بہت فرق ہے ۔

یہ فرق ہی تو ہمیں مٹانا ہے تاکہ آیندہ  نسلیں ہمارہ تذکرہ اچھے افاظ میں کیا کریں۔ ہاجراں نے بر جستہ کہا۔

خاموش رہو۔ شیر خار کسی آتش  فشاں کے مانند پھٹ پڑا۔ اب ہاجراں نے سر جھکا لیا۔ اور فاطمہ کو چپ کروانے لگی۔ اسکی ساس نے بھی بیٹے کو سمجھایا۔ لیکن شیر خان بد ستور  اکڑا ہی رہا۔

دن گزرتے رہے ۔فاطمہ بڑی ہونے لگی۔ شیر خان اسے سرخ سرخ آنکھوں سے کسی حریف کی مانند گھرتا ہی رہتا تھا۔  حالانکہ وہ اسکا اپنا ہی خون تھا۔  لیکن جہالت کا پردہ  اور تعصب کی تاریکی اسے پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔

وہ اب پھر امید سے تھی ۔ دوسری بار بھی شیر خان نے قیامت ہی برپا کردی۔۔ ہاجراں کی حالت سنبھلتے ہی غصے گالم گلوچ اور مار پیٹ سے دوسری بچی کی زندگی کا ہرجانہ  ماں کو ادا کرنا پڑا۔

تم نے بھی تو ایک لڑکی سے ہی شادی کی تھی پھر آخر لڑکی کی پیدائش پر  اس قدر غصہ کیوں اگر صرف لڑکے ہی ماں کی جھولی میں آتے رہے تو اس دنیا کا نظام کیسے چل سکتا ہے۔  لیکن وہ ضد کا پکا جنونی پھر بھی باز نہ آیا ۔بد سمتی سے گردش ایام کے ساتھ جیسے جیسے شیر خان بڑھاپے کی منزل کی طرف قدم بڑھا رہا تھا  ۔  اس کے ساتھ کے دوستوں اس پر تھو تھو کرنا شوعروع کردی ۔

معاشرہ اور خاندان میں وہ ایک ظالم باپ کہلوانے لگا تھا۔ جو بیٹیاں باپ کے عزت اور وقار کا ایک خاصہ بنتی ہیں وہ آج بھی اتنا وقت گرنے کے ساتھ ساتھ اپنے باپ کے لیۓ اتنی ہی اہم ہیں جتنا کے بیٹے     

No comments:

Post a Comment

')