شہر میں کوئی نہیں جس کو دعا دی جائے
سو مِری عمر درختوں کو لگا دی جائے
سوئے رہ جائیں پسِ پردہء شب ماہ و نجوم
آج کی رات چراغوں کو سزا دی جائے
اِنہیں اطراف میں موجود ہے وہ قوسِ قزح
آنکھ منظر کے تعاقب میں لگا دی جائے
مَیں نہیں کہتا مِرے ساتھ چلیں نیند میں لوگ
کم سے کم خواب کی تعبیر بتا دی جائے
کوئی پہلو ہو کہ لفظوں میں دھڑک اُٹھے حیات
کوئی صورت ہو کہ یہ نام نہادی جائے
مصرعء تر سے علاقہ ہی نہیں اِسکا
صفحہء خاک سے یہ جھیل مِٹا دی جائے
کھائے جاتا ہے شب و روز نئے عشق کا زعم
عین ممکن ہے تِری یاد بھلا دی جائے
آزر اِک اشک مِری آنکھ سے رخصت کرکے
ایک شعلے کو مِرے دل میں جگہ دی جائے
دلاور علی آزر
Hayeee wahhh
ReplyDelete