Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Monday, March 30, 2015

میں نے کہا تھا نا ٰ خوشبو میں مت بدل


میں نے کہا تھا نا ٰ خوشبو میں مت بدل
اب دیکھ تیرا وجود میری حسرتوں میں ہے۔ ۔ ۔



ان کہے سوالوں کا


ان کہے سوالوں کا
درد کیسے ہوتا ہے
تشنہ کام خواہشوں کی ٹیس 
کیسے اٹھتی ہے
بے زبان جذبوں کو جب سرا نہیں ملتا۔
تشنگی سی رہتی ہے
آسرا نہیں ملتا ۔
وہ بھی ان عذابوں سے کاش اس طرح گزرے
کاش اس کی آنکھوں میں خواب بے ثمر اتریں
کاش اس کی نیندوں میں رت جگے مسلسل ہوں
باوجود خواہش کے ایسے سب سوالوں کا
ربط ٹوڑ آئی ہوں
آج اس کے ہونٹوں پر
لفظ چھوڑ آئی ہوں


Wednesday, March 25, 2015

مالک اور بندہ



بندے اور مالک کا تعلق بڑا عجیب سا ہے۔۔ ۔مالک بے غرض ہے۔ بندہ خود غرض ہے ۔بندہ مانگتا بھی ہے تو اپنی غرض سے مانگتا ہے۔ مالک دیتا ہے تو بے غرض دیتا ہے، بے حساب دیتا ہے ، خوشی دیتا ہے، رزق دیتا ہے، نعمتیں دیتا ہے۔ بندہ حساب رکھتا ہے، ابھی اتنا غم ملا تھا، ابھی اتنا رزق ملا تھا ، ابھی اتنا دے دیا تھا ۔ مالک شہنشاہ ہے، بندہ گدا ہے۔ مالک سخی ہے ، بندہ منگتا ہے۔ مالک کہتا ہے مانگ، کیا مانگتا ہے۔ میں دیتا ہوں۔ بندہ جب جان پر پڑے تبھی مانگنے کی جانب آتا ہے ۔ مالک تو اتنا سخی ہے کہ آدابِ بندگی بھی سکھاتا ہے۔ بندہ خود غرض ہے، اپنی غرض کے لیے بھی آدابِ بندگی نہیں سیکھتا۔ اس لیے جب دربار ِ خداوندی میں جاتا ہے تو اسے ٹھیک طرح سے مانگنا بھی نہیں آتا۔ غرض پڑے، سر پر مصیبت آن پڑے تو رب کے حضور حاضری ہوتی ہے۔ دعا کے لیے ہاتھ اُٹھتے ہیں اور اگر اُس کی توفیق ہو جائے تو دو آنسو بھی نکل پڑتے ہیں۔ بندہ رب کو بھی ایموشنل بلیک میل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔


تُو سخی مولا۔


تیرا نبی ﷺ سخی مولا 


تیرے نبی ﷺ کا گھرانہ سخی مولا


سخیوں کا واسطہ سخیا، میری جھولی بھر دے


تُو تو مالک ہے مولا


تو شہنشاہ


میں تیرے در کا گدا


تُو اپنے نبی ﷺ پیروں کی خاک کا صدقہ ۔میری جھولی بھر دے


تُو تو بادشاہ ہے مولا


تیرے خزانوں میں بھلا کیا کمی آ جائے گی


تو یہ مُجھے دے دے۔ باقیوں کو اس سے بہتر دے دیجیو


تُو تو آل اِن آل ہے مالک۔ تُجھے کسی نے بھلا کیا پُوچھنا۔ 


یہ فیور کر دے نا مالک۔ تُو تو۔۔۔۔۔۔


بندہ گناہگار ہے۔ سیاہ کار ہے۔ جب ہاتھ اُٹھا کر مانگتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اُس کے پلے تو کچھ نہیں ہے۔ ایک ایک گناہ یاد آتا ہے ۔ ہر گناہ جو چھڈ یار خیر اے کہہ کر کیا ہوتا ہے، تو سر ندامت سے جھکتا چلا جاتا ہے۔ دل کرتا ہے کہ زمین پھٹ جائے اور اس میں سما جائے۔ دُعا کے لیے اُٹھے ہاتھ نیچے زمین پر ٹک جاتے ہیں۔ سرِ ندامت جھُکتے جھُکتے وہاں جا لگتا ہے جہاں اس کا اصل مقام ہے۔ بندہ سجدے میں روتا ہے۔ زار زار روتا ہے۔ اپنے گناہوں پر روتا ہے۔ اور پھر اپنی خواہشات پر اور زیادہ روتا ہے ۔رب کو اس کی ستاری کا واسطہ دیتا ہے۔ غفاری کا واسطہ دیتا ہے۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے۔ اور ساتھ مان بھرے انداز میں مانگتا بھی ہے۔ پتہ ہے کہ دینا تو اُس نے ہی ہے۔ رب تو مالک ہے۔ بندہ اس کے در کاسگ۔ سگ بھی ایک وفادار جانور ہے اپنے مالک کا بُوہا نہیں چھوڑتا۔ بندہ تو بندہ ہو کر بھی سگ سے نہیں سیکھتا۔ سارا پِنڈ پھرتا ہے۔ لُور لُور پھرتا ہے۔ پھر جب بھوک لگتی ہے تو مالک کے در پر آ بیٹھتا ہے کہ اب روٹی ملے گی۔ یہیں سے ملے گی۔ بندہ ایسا سگ ہے جو خواہش پوری کروانی ہو تو مالک کے در پر آ بیٹھتا ہے۔ پتہ ہے کہ عطاء تو یہیں سے ہونی ہے۔ اگر یہاں سے فائل پر سائن ہو گئے تو پھر ڈر کاہے کا۔ یہی تو بڑا دفتر ہے۔ یہیں کیس داخل ہے۔ یہیں سے منظوری ہو گی۔ بندہ مانگتا ہے، بے قرار ہو کر مانگتا ہے، تڑپتا ہے اور پھر شرمندہ بھی ہوتا ہے کہ کیا مانگ رہا ہے۔ بجائے کہ رب سے رب کو ہی مانگ لے۔ بندہ ایسا سگِ دنیا ہے کہ دنیا کو مانگتا ہے، دنیا والے مانگتا ہے، دنیاوی فائدے مانگتا ہے۔ بندہ رذیل ہے، کمینہ ہے۔ کمینے کو جس دن دیہاڑی مل جائے اُس دن وہ خود کوچوہدری سمجھتا ہے۔ جب تک جیب گرم رہے وہ کسی کو گھاس نہیں ڈالتا۔ جب جیب خالی ہو جائے تو اپنی اوقات پر واپس آ جاتا ہے۔ بندہ بھی جب تک رب سے کوئی غرض نہ ہو خود کو چوہدری سمجھتا ہے۔ جب رب سے غرض آ پڑتی ہے تو اوقات پر واپس آ جاتا ہے۔ بندے کی بِلٹ ان رذالت اسے کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ پر بندہ تو بندہ ہے جی۔ وہ رب کے پاس نہیں جائے گا تو کہاں جائے گا؟ رب ہی تو ہے سب کچھ۔ اُسی کے در سے سب مِلا ہے اور سب ملے گا۔ اُسی سے تو سب کو ملتا ہے۔ تو بندہ بھی اُسی سے مانگتا ہے۔ اپنی سیہ کاریوں، رذالتوں اور گناہوں کے باوجود بندہ اُسی سے مانگتا ہے۔ بندہ اور کر بھی کیا سکتا ہے۔ مانگ تو سکتا ہے نا۔ اور مالک سے مانگتا ہے۔ مانگتا چلا جاتا ہے۔ اب مالک کی مرضی ہے۔ دے یا نہ دے۔ دھُتکار دے، یا روٹی ڈال دے۔ یہ تو مالک کی مرضی ہے نا۔ بندہ چاہے جتنا بھی ذلیل اور کمینہ ہو، بڑی اچھی طرح جانتا ہے کہ مالک سے ہی سب کچھ ملے گا۔ اس لیے بندہ اس کے در پر بیٹھا رہتا ہے، جھڑکی بھی ملے تو ذرا پرے ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ نگاہیں بُوہے سے ہی چپکی رہتی ہیں۔ ندامت بھری نگاہیں، جھُکی جھُکی نگاہیں، شرمندہ اور پُر ندامت نگاہیں۔ ساتھ اگر آنسوؤں کا نذرانہ بھی ہو جائے تو سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے۔ امید بھری نگاہیں رب کے در پر لگائے رکھتا ہے۔ کرم کا منتظر رہتا ہے، رحمت کا منتظر رہتا ہے، عطاء کا متلاشی رہتا ہے۔ بھلا یہ کم رحمت ہے کہ رب مانگنے کی توفیق ہی دے دے۔ ورنہ بندے کی کیا اوقات اگر اسے توفیق ہی نہ ملی تو؟


بہت پیاری دعا





،یا الله جو تو نے عطاء کیا
،اور جو تو نے عطاء نہیں کیا 
،اور جو تو نے دے کر لے لیا 
!!_____ان سب پر تیرا شکر 
،کیونکہ جو تو نے عطاء کیا وہ تیری نعمت
،جو تو نے عطاء نہیں کیا اس میں تیری حکمت 
،اور جو تو نے دے کر لے لیا وہ ہمارا امتحان
!_____یا الله ہمیں ہر حال میں اپنا شکر ادا کرنے والا بنا دے 


Saturday, March 21, 2015

کل شب چکنا چور ہوا تھا دل اس کا


کل شب چکنا چور ہوا تھا دل اس کا

یا پھر پہلی بار وہ دل کھول کر روئی تھی





Ay Wada Framosh Teri Khair Ho Lekin


اے وعدہ فراموش تیری خیر ھو لیکن
اک بات میری مان، تو وعدہ نہ کیا کر


Ay Wada Framosh Teri Khair Ho Lekin
Ek Baat Meri Maan, Tu Wada Na Kiya Ker





Yeh Ajab Logon Ki Basti Hai K Jinhen



یہ عجب لوگوں کی بستی ھے کہ جنہیں
فقط اس لئے جینا ھے کہ مر جانا ھے


Yeh Ajab Logon Ki Basti Hai K Jinhen
Faqt Is Liye Jeena Hai K Maar Jana Hai





گیا رقِیب کے گھر بارہا شبِ وعدہ


گیا رقِیب کے گھر بارہا شبِ وعدہ
بہت ذلیل مجھے تیری جستجو نے کیا


Gaya Raqeeb K Gher Bar-ha Shab-e-Wada
Boht Zalel Muje Teri Justajo Ne Kiya






Aaj Se Maine Bhi Tore Sab Rishte


Aaj Se Maine Bhi Tore Sab Rishte
Aaj Se Maine Bhi Deewar Pa Mari Diniya



Friday, March 20, 2015

کیا تم بھی درد چھپانے کی کوشش کرتے کرتے


کیا تم بھی
درد چھپانے کی کوشش کرتے کرتے
اکثر تھک سے جاتے ہو
اور بلاوجہ مسکراتے ہو ؟


')