Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Thursday, August 20, 2015

تمہارا ہاتهہ جب میرے




تمہارا ہاتهہ جب میرے
لرزتے ہاتهہ سے چهوٹا 
خزاں کے آخری دن تهے
 

میرے معیار کا تقاضا ہے



میرے معیار کا تقاضا ہے
میرا محبوب بھی تھوڑا پاگل ہو...
-

محبت مین شراکت سہہ گئی ہوں







محبت مین شراکت سہہ گئی ہوں 
بتا ممکن تھا میں ایسا کروں گی۔۔۔۔۔۔۔
 

Tuesday, August 18, 2015

میـں کیـــا کہُــوں کـہ مُجھــے صَبـر کیُـوں نہیـں آتــا



میـں کیـــا کہُــوں کـہ مُجھــے صَبـر کیُـوں نہیـں آتــا 
میـں کیـا کـرُوں کـہ تُجھـے دیکھنـے کـِی عـادت ہــے

 

ھم نے دیکھی ھے




ھم نے دیکھی ھے
اِن آنکھوں کی مہکتی خوشبو
ھاتھ سے چُھو کے اِسے
رشتوں کا الزام نہ دو

صرف احساس ھے یہ
رُوح سے محسوس کرو
پیار کو پیار ھی رھنے دو
کوئی نام نہ دو

پیار کوئی بول نہیں
پیار آواز نہیں
ایک خاموشی ھے
سنتی ھے ، کہا کرتی ھے
نہ یہ بُجھتی ھے نہ رُکتی
نہ ٹھہری ھے کہیں
نُور کی بُوند ھے
صدیوں سے بہا کرتی ھے.
مُسکراھٹ سی کِھلی رھتی ھے
آنکھوں میں کہیں
اور پلکوں پہ اُجالے سے
جُھکے رھتے ھیں
ھونٹ کچھ کہتے نہیں
کانپتے ھونٹوں پہ مگر
کتنے خاموش سے افسانے
رُکے رھتے ھیں
صرف اَحساس ھے یہ
رُوح سے محسوس کرو
پیار کو پیار ھی رھنے دو
کوئی نام نہ دو

میں جو بدلوں تو تغیّر ھے میری ذات تلک



میں جو بدلوں تو تغیّر ھے میری ذات تلک 
تـو جو بدلـے تو شب و روز بدل جاتـے ہیں

 

دنیا مجھ کو ڈھونڈ تھکے


دنیا مجھ کو ڈھونڈ تھکے
صرف اُسی کو ملتا میں
ہوتا بند کتاب کوئی
صرف اُسی پر کھلتا میں
جس جس شے کو چھوتا وہ 
اس کو چنتا جاتا میں

یہ کون ہے جو دکھائی نہیں دیا اب تک



یہ کون ہے جو دکھائی نہیں دیا اب تک
اور ایک عمر سے اپنی طرف بلاتا ہے۔ ۔

 

کراچی


کراچی پر کیا لکھوں۔ ایک عرصے سے بلاگنگ کی دنیا میں رہ کر، اور جب سے کراچی سے نعمان کے بعد بلاگرز اور تبصرہ نگاروں کی دوسری کھیپ لانچ ہوئی ہے تب سے اگر کراچی کے حالات کے بارے میں کچھ لکھا تو طعنے سننے پڑے۔ ایک بڑے سقہ قسم کے تبصرہ نگار نے فورًا پنجابی ہونے کے طعنے دینے شروع کردئیے، پنجاب میں ایسا ہو تو کوئی بولتا نہیں کراچی میں ہوگیا تو آسمان سر پر اٹھا لیا۔ بات اس وقت ہورہی تھی ایک پل گرنے کی جو تعمیر کے دوران یا چند ہفتوں بعد ہی گر گیا تھا اور مجھے اس کے نیچے کھڑے ٹھیلے والوں کی موت پر بڑا افسوس ہوا تھا، کہ ایک بے ایمان کی وجہ سے غریبوں کی جان گئی، لیکن ان صاحب نے میرے لتے لینے شروع کردئیے۔
یہ ساری بات کرنے کا مقصد کسی کی گوشمالی، شکایت یا اختلافات کو ہوا دینا نہیں تھا بلکہ مقصد یہ تھا کہ ایسے موضوعات پر میں نے لکھنا ہی چھوڑ دیا۔ سیاست کے اتار چڑھاؤ پر کبھی کبھار کچھ لکھتی ہوں، دہشت گردی پر اس وقت لکھا جب صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا اور تب چند ہفتے پہلے والی پوسٹ وجود میں آئی جس پر سب کو اعتراض تھا کہ فرقہ واریت کو ہوا دے رہی ہے، خیر اپنی اپنی سوچ، سرحد اور بلوچستان کے حالات پر بھی کچھ نہیں لکھتی ، کیا لکھوں ہزاروں میل دور بیٹھ کر بندہ کیا لکھ سکتا ہے۔ جو حجاب شب، یا شعیب صفدر، ابن ضیاء یا ابوشامل لکھ سکتے ہیں وہ میں کہاں لکھ سکتی ہوں۔ میں تو ان ظالموں کے مرنے کی دعا ہی کرسکتی ہوں۔ دعا نہیں بدعا کہ خدا انھیں غارت کرے جنہوں نے کراچی کا سکون برباد کردیا، ان سیاہ ستدانوں اور ان بےغیرت حکمرانوں بھی غارت کرے جنہیں صرف اپنے مفادات سے غرض ہے، ان جماعتوں اور ان کے لیڈروں کے بال بچے اس میں مریں تو انھی احساس ہو کہ بےگناہوں پر ظلم کرنے سے کیا بیتتی ہے۔ کیا کہوں کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے بس غم بھری ایک چپ ہے،ان قانون کے رکھوالوں کی بےغیرتی پر جو مدد کے لے کال کرنے پر بھی یہ کہتے ہیں کہ اوپر سے حکم نہیں، ان حکمرانوں کی بےغیرتی پر جو لاشیں گرنے سے پہلے حالات کا ادراک نہیں کرسکتے، ہمیشہ سینچری پوری ہونے پر "نوٹس" لیتے ہیں۔ خدا انھیں ذلیل و خوار، مغضوب و مقہور کرے جو بےگناہوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں۔ اب تو دعائیں بھی بے اثر ہوگئی ہیں، گناہوں سے لتھڑے دلوں سے نکلی دعائیں اوپر جاتی ہی نہیں، یہیں ڈولتی رہ جاتی ہیں۔ دعائیں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ایس ایم ایس

پاکستان میں اس وقت کم از کم پانچ موبائل فون کمپنیاں فعال ہیں اور جدید ترین خدمات فراہم کررہی ہیں. ملک کی آدھی کے قریب آبادی موبائل فون استعمال کررہی ہے. ہمارے میڈیا کے اشتہارات کا اچھا خاصا حصہ ان پانچ کمپنیوں کے اشتہارات پر مشتمل ہوتا ہے. ہر روز کوئی نیا پیکج اور ہر روز کوئی نئی آفر. یہ کردیا وہ کردیا وغیرہ وغیرہ.
ان کمپنیوں کی فراہم کردہ خدمات میں سے ایک ایس ایم ایس یعنی شارٹ میسنجنگ سروس ہے. ایس ایم ایس کے بارے میں کئی سال پہلے گلوبل سائنس میں پڑھا تھا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ ہر وقت آنلائن رہ کر پیغامات وصول کرسکیں. خیر اس کا مقصد جو بھی آج کل یہ پاکستان میں انّھے وا استعمال ہورہے ہیں. لطائف سے لے کر مرے ہوئے شعرا بشمول فراز کی خوب مٹی پلید کی جاتی ہے.
ایک ایس ایم ایس، اگر آپ کے پاس کوئی پیکج نہیں، تو قریبًا سوا روپے میں پڑتا ہے۔ لیکن اگر آپ کے پاس پیکج ہے جیسا کہ قریبًا ہر کمپنی دے رہی ہے تو آپ کو یہی ایس ایم ایس دس، بیس، تیس پیسے اور ایک پیسے سے بھی کم میں پڑتا ہے۔ لیکن اس سارے میں جو کھیل کھیلا گیا ہے وہ بہت سادہ سا ہے۔ آپ پیکج کروائیں کمپنی کو مخصوص رقم ادا کریں۔ اور اس کے بعد مخصوص مدت کے لیے ایس ایم ایس کی مخصوص تعداد آپ کی ہوئی۔ اس سب کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ ایس ایم ایس کام کے لیے نہیں تفریح بلکہ وقت ضائع کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ 
مجھے ذاتی طور پر ماہانہ سو کے قریب ایس ایم ایس کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے پہلے پہل ایس ایم ایس کرنے سے پرہیز کی کوشش کی لیکن دوست احباب کے طعنے، ہم جماعتوں کے جائز استفسارات کے جواب (چونکہ میں کلاس کا سی آر ہوں) اور کئی ایسے چھوٹے موٹے کاموں کے لیے مجھے اس طرف آنا ہی پڑا۔ اب حال یہ ہے کہ ہر ماہ میرا سو کے قریب روپیہ ان پر لگتا ہے۔ اور پھر مجھے یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ ایس ایم ایس اتنے رہ گئے ہیں انھیں ختم بھی کرنا ہے۔ چناچہ میں نے جہاں ایک کرنا ہو وہاں تین چار بھی کردیتا ہوں۔ اب ان کو ختم بھی تو کرنا ہے کا سوچ کر۔
میرا سوال اتنا ہے کہ اگر ایس ایم ایس اتنا سستا ہوسکتا ہے جیسا کہ ان پیکجز کے ذریعے ہے تو اس کو مناسب ریٹ پر لاکر نارمل پیکج میں شامل کیوں نہیں کردیا جاتا؟ جس طرح ایس ایم ایس مفت بانٹے جارہے ہیں ،چار روپے کٹوائیں 24 گھنٹے میں 500 ایس ایم ایس آپ کے، اگر اس کو دس سے ضرب دی جائے تو جواب آٹھ پیسے آتا ہے۔ چلیں دس پیسے کرلیں اور ٹیکس ڈال کر پندرہ پیسے کرلیں۔ اگر پندرہ پیسے کا ایس ایم ایس بھی کردیا جائے تو کیا ہے۔
پچھلے دنوں ایک دوست سے چائنہ میں بات ہورہی تھی اس کے مطابق ایک ایس ایم ایس پاکستانی پانچ سے چھ روپے کا پڑتا ہے، کال سننے کے چارجز دینے پڑتے ہیں، روزانہ کے پیسے کاٹے جاتے ہیں جیسے پاکستان میں وائرلس لوکل لوپ والے روز کے پیسے کاٹتے ہیں بطور لائن رینٹ اور جب آپ کا بیلنس ختم تو نمبر بند۔ جب تک دوبارہ لوڈ نہ کریں تو نہ کال وصول سکیں گے نہ اس دوران آیا میسج آپ تک پہنچ سکے گا، کمپنی کے سرور پر بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ پاکستان میں اس سے حالات ہزار درجے بہتر ہیں اور اس کی وجہ کمپنیوں کا آپسی مقابلہ ہے۔ لیکن پھر بھی ان کمپنیوں ہمارا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ سیل فون کام کی چیز نہیں فن اور مسخریاں کرنے کی چیز بن گیا ہے۔ کام کے لیے میسج کرنا ہے تو سوا روپیہ اور بے مقصد کرنے ہیں تو جتنے چاہیں۔ بس پیسے کٹواتے جائیں اور جو مرضی حاصل کرلیں مفت ایس ایم ایس سے لے کر انٹرنیٹ کے گھنٹوں کی سستے ترین گھنٹے۔ لیکن اس طرح کہ آپ انھیں استعمال صرف اور صرف وقت ضائع کرنے کے لیے کرسکتے ہیں۔ عجیب سائنس ہے یہ بھی اور اس سائنس نے ہم نوجوانوں کی کیمیا کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ لڑکے لڑکیوں کی بے مقصد رات ساری ساری رات گپ بازی اور موبائل چیٹ نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔



')