Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Saturday, January 13, 2018

ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺑﻌﺪ _____ ﻣِﺮﮮ ﺯﺧﻢِ ﻧﺎﺭَﺳﺎﺋﯽ ﮐﻮ

 

ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺑﻌﺪ _____ ﻣِﺮﮮ ﺯﺧﻢِ ﻧﺎﺭَﺳﺎﺋﯽ ﮐﻮ

ﻧﮧ ﮨﻮ ﻧﺼﯿﺐ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﺎﺭﮦ ﮔﺮ _____ ﺩُﻋﺎ ﮐﺮﻧﺎ

 

 

 

Thursday, January 11, 2018

نئی خواہش رچائی جا رہی ہے

 

 

نئی خواہش رچائی جا رہی ہے

تیری فرقت منائی جا رہی ہے

 

نبھائی تھی نہ ہم نے جانے کس سے

کہ اب سب سے نبھائی جا رہی ہے

 

یہ ہے تعمیرِ دنیا کا زمانہ

حویلی دل کی ڈھائی جا رہی ہے

 

کہاں لذت وہ سوزِ جستجو کی

یہاں ہر چیز پائی جا رہی ہے

 

سُن اے سورج جدائی موسموں کے!

میری کیاری جلائی جا رہی ہے

 

بہت بدحال ہیں بستی، تیرے لوگ

تو پھر تُو کیوں سجائی جا رہی ہے

 

خوشا احوال اپنی زندگی کا

سلیقے سے گنوائی جا رہی ہے

Wednesday, January 10, 2018

بڑااحسان ہم فرما رہے ہیں

 

 

بڑااحسان ہم فرما رہے ہیں

کہ اُن کے خط انہیں لوٹا رہے ہیں

 

نہیں ترکِ محبت پر وہ راضی

قیامت ہے کہ ہم سمجھا رہے ہیں

 

یقیں کا راستہ طے کرنے والے

بہت تیزی سے واپس آ رہے ہیں

 

یہ مت بُھولو کہ یہ لمحات ہم کو

بچھڑنے کے لیے ملوا رہے ہیں

 

تعجب ہے کہ عشق و عاشقی سے

ابھی کچھ لوگ دھوکا کھا رہے ہیں

 

تمہیں چاہیں گے جب چِھن جاؤ گی تو

ابھی ہم تم کو ارزاں پا رہے ہیں

 

کسی صورت انہیں نفرت ہو ہم سے

ہم اپنے عیب خود گِنوا رہے ہیں

 

وہ پاگل مست ہے اپنی وفا میں

مری آنکھوں میں آنسو آ رہے ہیں

 

دلیلوں سےاسے قائل کیا تھا

دلیلیں دے کے اب پچھتا رہے ہیں

 

تری بانہوں سے ہجرت کرنے والے

نئے ماحول میں گھبرا رہے ہیں

 

یہ جزبہ عشق ہے یا جزبہء رحم

ترے آنسو مجھے رُلوا رہے ہیں

 

عجب کچھ ربط ہے تم سے تم کو

ہم اپنا جان کر ٹھکرا رہے ہیں

 

وفا کی یادگاریں تک نہ ہوں گی

مری جاں بس کوئی دن جا رہے ہیں

 

ہر خراش نفس ، لکھے جاؤں

 

 

ہر خراش نفس ، لکھے جاؤں

بس لکھے جاؤں ، بس لکھے جاؤں​

ہجر کی تیرگی میں روک کے سانس

روشنی کے برس لکھے جاؤں​

ان بسی بستیوں کا سارا لکھا

ڈھول کے پیش و نظر پس لکھے جاؤں​

مجھ ہوس ناک سے ہے شرط کہ میں

بے حسی کی ہوس لکھے جاؤں​

ہے جہاں تک خیال کی پرواز

میں وہاں تک قفس لکھے جاؤں​

ہیں خس و خار دید ، رنگ کے رنگ

رنگ پر خارو خس لکھے جاؤں

دل کا دیار خواب میں، دور تلک گزر رہا

 

 

دل کا دیار خواب میں، دور تلک گزر رہا

پاؤں نہیں تھے درمیاں، آج بڑا سفر رہا​

ہو نہ سکا کبھی ہمیں اپنا خیال تک نصیب

نقش کسی خیال کا، لوح خیال پر رہا​

نقش گروں سے چاہیے، نقش و نگار کا حساب

رنگ کی بات مت کرو، رنگ بہت بکھر رہا​

جانے گماں کی وہ گلی ایسی جگہ ہے کون سی

دیکھ رہے ہو تم کہ میں، پھر وہیں جا کے مر رہا​

شہرِ فراق یار سے آئی ہے اک خبر مجھے

کوچہ یاد یار سے، کوئی نہیں اُبھر رہا

یارو! نگہ یار کو، یاروں سے گِلہ ہے

 

 

یارو! نگہ یار کو، یاروں سے گِلہ ہے​

خونیں جگروں، سینہ فگاروں سے گِلہ ہے​

جاں سے بھی گئے، بات بھی جاناں کی نہ سمجھی​

جاناں کو بہت عشق کے ماروں سے گِلہ ہے​

اب وصل ہو یا ہجر، نہ اب تک بسر آیا​

اِک لمحہ، جسے لمحہ شماروں سے گِلہ ہے​

اُڑتی ہے ہر اک شور کے سینے سے خموشی​

صحراؤں کو پُرشور دیاروں سے گِلہ ہے​

بیکار کی اک کارگزاری کے حسابوں​

بیکار ہوں اور کارگزاروں سے گِلہ ہے​

میں آس کی بستی میں گیا تھا سو یہ پایا​

جو بھی ہے اُسے اپنے سہاروں سے گِلہ ہے​

بے فصل اِشاروں سے ہوا خون جنوں کا​

اُن شوخ نگاہوں کے اِشاروں سے گِلہ ہے

 

ضبط کر کے ہنسی کو بُھول گیا




ضبط کر کے ہنسی کو بُھول گیا​
میں تو اُس زخم ہی کو بُھول گیا​
ذات در ذات ہمسفر رہ کر​
اجنبی، اجنبی کو بُھول گیا​
صبح تک وجہِ جانکنی تھی جو بات​
میں اُسے شام ہی کو بُھول گیا​
عہدِ وابستگی گزار کے میں​
وجہِ وابستگی کو بُھول گیا​
سب دلیلیں تو مجھ کو یاد رہیں​
بحث کیا تھی اِسی کو بُھول گیا​
کیوں نہ ہو ناز اِس ذہانت پر​
ایک میں، ہر کسی کو بُھول گیا​
سب سے پُراَمن واقعہ یہ ہے​
آدمی، آدمی کو بُھول گیا​
قہقہہ مارتے ہی دیوانہ​
ہرغِم زندگی کو بُھول گیا​
خواب ہا خواب جس کو چاہا تھا​
رنگ ہا رنگ اسی کو بُھول گیا​
کیا قیامت ہوئی اگر اِک شخص​
اپنی خوش قسمتی کو بُھول گیا​
سوچ کر اُس کی خلوت انجمنی​
واں میں اپنی کمی کو بُھول گیا​
سب بُرے مجھ کو یاد رہتے ہیں​
جو بَھلا تھا اُسی کو بُھول گیا​
اُن سے وعدہ تو کر لیا لیکن​
اپنی کم فُرصتی کو بُھول گیا​
بستیو! اب تو راستہ دے دو​
اب تو میں اس گلی کو بُھول گیا​
اُس نے گویا مُجھی کو یاد رکھا​
میں بھی گویا اُسی کو بُھول گیا​
یعنی تم وہ ہو، واقعی؟ حد ہے​
میں تو سچ مُچ سبھی کو بُھول گیا​
آخری بُت خدا نہ کیوں ٹھہرے​
بُت شکن بُت گری کو بُھول گیا​
اب تو ہر بات یاد رہتی ہے​
غالباً میں کسی کو بُھول گیا​
اس کی خوشیوں سے جلنے والا جون​
اپنی ایذا دہی کو بُھول گیا
,



کوئی گماں بھی نہیں، درمیاں گماں ہے یہی

 

 

کوئی گماں بھی نہیں، درمیاں گماں ہے یہی

اسی گماں کو بچا لوں، کہ درمیاں ہے یہی

 

کبھی کبھی جو نہ آؤ نظر، تو سہہ لیں گے

نظر سے دُور نہ ہونا، کہ امتحاں ہے یہی

 

میں آسماں کا عجب کچھ لحاظ رکھتا ہوں

جو اس زمین کو سہہ لے وہ آسماں ہے یہی

 

یہ ایک لمحہ، جو دریافت کر لیا میں نے

وصالِ جاں ہے یہی اور فراقِ جاں ہے یہی

 

تم ان میں سے ہو جو یاں فتح مند ٹھیرے ہیں

سنو! کہ وجۂ غمِ دل شکستگاں ہے یہی

 

یاد اُسے انتہائی کرتے ہیں

 

یاد اُسے انتہائی کرتے ہیں یاد اُسے انتہائی کرتے ہیں

سو ہم اس کی بُرائی کرتے ہیں

 

پسند آتا ہے دِل سے یوسف کو

وہ جو یوسف کے بھائی کرتے ہیں

 

ہے بدن خوابِ وصل کا دنگل

آؤ زور آزمائی کرتے ہیں

 

اُس کو اور غیر کو خبر ہی نہیں

ہم لگائی بجھائی کرتے ہیں

 

ہم عجب ہیں کہ اُس کی بانہوں میں

شکوۂ نارسائی کرتے ہیں

 

حالتِ وصل میں بھی ہم دونوں

لمحہ لمحہ جدائی کرتے ہیں

 

آپ جو میری جاں ہیں، میں دل ہوں

مجھ سے کیسے جدائی کرتے ہیں

 

با وفا ایک دوسرے سے میاں

ہر نفس بے وفائی کرتے ہیں

 

جو ہیں سرحد کے پار سے آئے

وہ بہت خود ستائی کرتے ہیں

 

پَل قیامت کے سُود خوار ہیں جون

یہ ابد کی کمائی کرتے ہیں

سو ہم اس کی بُرائی کرتے ہیں

 

پسند آتا ہے دِل سے یوسف کو

وہ جو یوسف کے بھائی کرتے ہیں

 

ہے بدن خوابِ وصل کا دنگل

آؤ زور آزمائی کرتے ہیں

 

اُس کو اور غیر کو خبر ہی نہیں

ہم لگائی بجھائی کرتے ہیں

 

ہم عجب ہیں کہ اُس کی بانہوں میں

شکوۂ نارسائی کرتے ہیں

 

حالتِ وصل میں بھی ہم دونوں

لمحہ لمحہ جدائی کرتے ہیں

 

آپ جو میری جاں ہیں، میں دل ہوں

مجھ سے کیسے جدائی کرتے ہیں

 

با وفا ایک دوسرے سے میاں

ہر نفس بے وفائی کرتے ہیں

 

جو ہیں سرحد کے پار سے آئے

وہ بہت خود ستائی کرتے ہیں

 

پَل قیامت کے سُود خوار ہیں جون

یہ ابد کی کمائی کرتے ہیں

شرمندگی ہے ہم کو بہت ہم مِلے تمہیں

 

 

شرمندگی ہے ہم کو بہت ہم مِلے تمہیں

تم سر بسر خوشی تھے مگر غم مِلے تمہیں

میں اپنے آپ میں نہ ملا اس کا غم نہیں

غم تو یہ ہے کہ تم بھی بہت کم مِلے تمہیں

ہے جو ہمارا ایک حساب اُس حساب سے​

آتی ہے ہم کو شرم کہ پیہم مِلے تمہیں

تم کو جہان شوق و تمنا میں کیا ملا​

ہم بھی ملے تو درہم و برہم مِلے تمہیں

اب اپنے طور ہی میں نہیں سو کاش کہ​

خود میں خود اپنا طور کوئی دم مِلے تمہیں

اس شہر حیلہ جُو میں جو محرم مِلے مجھے​

فریاد جانِ جاں وہی محرم مِلے تمہیں

دیتا ہوں تم کو خشکیِ مژگاں کی میں دعا​

مطلب یہ ہے کہ دامن پرنم مِلے تمہیں

میں اُن میں آج تک کبھی پایا نہیں گیا

جاناں! جو میرے شوق کے عالم مِلے تمہیں

تم نے ہمارے دل میں بہت دن سفر کیا

شرمندہ ہیں کہ اُس میں بہت خم مِلے تمہیں

یوں ہو کہ اور ہی کوئی حوّا مِلے مجھے​

ہو یوں کہ اور ہی کوئی آدم مِلے تمہیں

 

 

 

 

')