Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Wednesday, November 22, 2017

آئے کچھ ابر کچھ شراب آئےآئے کچھ ابر کچھ شراب آئے



a


آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے 


اس کے بعد آئے جو عذاب آئے 


بام مینا سے ماہتاب اترے 


دست ساقی میں آفتاب آئے 


ہر رگ خوں میں پھر چراغاں ہو 


سامنے پھر وہ بے نقاب آئے 


عمر کے ہر ورق پہ دل کی نظر 


تیری مہر و وفا کے باب آئے 


کر رہا تھا غم جہاں کا حساب 


آج تم یاد بے حساب آئے 


نہ گئی تیرے غم کی سرداری 


دل میں یوں روز انقلاب آئے 


جل اٹھے بزم غیر کے در و بام 


جب بھی ہم خانماں خراب آئے 


اس طرح اپنی خامشی گونجی 


گویا ہر سمت سے جواب آئے 


فیضؔ تھی راہ سر بسر منزل 


ہم جہاں پہنچے کامیاب آئے



اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا





اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا 


جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا 


یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے 


آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا 


کبھی تقدیر کا ماتم کبھی دنیا کا گلہ 


منزل عشق میں ہر گام پہ رونا آیا 


مجھ پہ ہی ختم ہوا سلسلۂ نوحہ گری 


اس قدر گردش ایام پہ رونا آیا 


جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیلؔ 

مجھ کو اپنے دل ناکام پہ رونا آی



اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائ








اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے 


منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے 


اے دل کی خلش چل یوں ہی سہی چلتا تو ہوں ان کی محفل میں 


اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آ جائے 


اے رہبر کامل چلنے کو تیار تو ہوں پر یاد رہے 


اس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آ جائے 


ہاں یاد مجھے تم کر لینا آواز مجھے تم دے لینا 


اس راہ محبت میں کوئی درپیش جو مشکل آ جائے 


اب کیوں ڈھونڈوں وہ چشم کرم ہونے دے ستم بالائے ستم 


میں چاہتا ہوں اے جذبۂ غم مشکل پس مشکل آ جائے 


اس جذبۂ دل کے بارے میں اک مشورہ تم سے لیتا ہوں 


اس وقت مجھے کیا لازم ہے جب تجھ پہ مرا دل آ جائے 


اے برق تجلی کوندھ ذرا کیا تو نے مجھ کو بھی موسیٰ سمجھا ہے 


میں طور نہیں جو جل جاؤں جو چاہے مقابل آ جائے 


آتا ہے جو طوفاں آنے دو کشتی کا خدا خود حافظ ہے 


ممکن تو نہیں ان موجوں میں بہتا ہوا ساحل آ جائے



آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو





آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو 


سایہ کوئی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو 


جب شاخ کوئی ہاتھ لگاتے ہی چمن میں 


شرمائے لچک جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو 


صندل سے مہکتی ہوئی پر کیف ہوا کا 


جھونکا کوئی ٹکرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو 


اوڑھے ہوئے تاروں کی چمکتی ہوئی چادر 


ندی کوئی بل کھائے تو لگتا ہے کہ تم ہو 


جب رات گئے کوئی کرن میرے برابر 


چپ چاپ سی سو جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو



آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہوتے تک





آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہوتے تک 


کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک 

دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ 


دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہوتے تک 


عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب 


دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہوتے تک 


ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن 


خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک 


پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم 


میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہوتے تک 

یک نظر بیش نہیں فرصت ہستی غافل 


گرمیٔ بزم ہے اک رقص شرر ہوتے تک 


غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج 


شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہوتے تک


انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہات




انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ 
دیکھا جو مجھ کو چھوڑ دیئے مسکرا کے ہاتھ 
بے ساختہ نگاہیں جو آپس میں مل گئیں 
کیا منہ پر اس نے رکھ لیے آنکھیں چرا کے ہاتھ 
یہ بھی نیا ستم ہے حنا تو لگائیں غیر 
اور اس کی داد چاہیں وہ مجھ کو دکھا کے ہاتھ 
بے اختیار ہو کے جو میں پاؤں پر گرا 
ٹھوڑی کے نیچے اس نے دھرا مسکرا کے ہاتھ 
گر دل کو بس میں پائیں تو ناصح تری سنیں 
اپنی تو مرگ و زیست ہے اس بے وفا کے ہاتھ 
وہ زانوؤں میں سینہ چھپانا سمٹ کے ہائے
اور پھر سنبھالنا وہ دوپٹہ چھڑا کے ہاتھ 
قاصد ترے بیاں سے دل ایسا ٹھہر گیا 
گویا کسی نے رکھ دیا سینے پہ آ کے ہاتھ 
اے دل کچھ اور بات کی رغبت نہ دے مجھے 
سننی پڑیں گی سیکڑوں اس کو لگا کے ہاتھ 
وہ کچھ کسی کا کہہ کے ستانا سدا مجھے 
وہ کھینچ لینا پردے سے اپنا دکھا کے ہاتھ 
دیکھا جو کچھ رکا مجھے تو کس تپاک سے 
گردن میں میری ڈال دیئے آپ آ کے ہاتھ 
پھر کیوں نہ چاک ہو جو ہیں زور آزمائیاں 
باندھوں گا پھر دوپٹہ سے اس بے خطا کے ہاتھ 
کوچے سے تیرے اٹھیں تو پھر جائیں ہم کہاں 
بیٹھے ہیں یاں تو دونوں جہاں سے اٹھا کے ہاتھ 
پہچانا پھر تو کیا ہی ندامت ہوئی انہیں 
پنڈت سمجھ کے مجھ کو اور اپنا دکھا کے ہاتھ 
دینا وہ اس کا ساغر مے یاد ہے نظامؔ 
منہ پھیر کر ادھر کو ادھر کو بڑھا کے ہاتھ


آنکھوں سے حیا ٹپکے ہے انداز تو دیکھو





آنکھوں سے حیا ٹپکے ہے انداز تو دیکھو 


ہے بو الہوسوں پر بھی ستم ناز تو دیکھو 


اس بت کے لیے میں ہوس حور سے گزرا 


اس عشق خوش انجام کا آغاز تو دیکھو 


چشمک مری وحشت پہ ہے کیا حضرت ناصح 


طرز نگہ چشم فسوں ساز تو دیکھو 


ارباب ہوس ہار کے بھی جان پہ کھیلے 


کم طالعی عاشق جاں باز تو دیکھو 


مجلس میں مرے ذکر کے آتے ہی اٹھے وہ 


بدنامیٔ عشاق کا اعزاز تو دیکھو 


محفل میں تم اغیار کو دز دیدہ نظر سے 


منظور ہے پنہاں نہ رہے راز تو دیکھو 


اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک 


شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو 


دیں پاکی دامن کی گواہی مرے آنسو 


اس یوسف بے درد کا اعجاز تو دیکھو 


جنت میں بھی مومنؔ نہ ملا ہائے بتوں سے 


جور اجل تفرقہ پرداز تو دیکھو

انشاؔ جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا





انشاؔجی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا 


وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا 


اس دل کے دریدہ دامن کو دیکھو تو سہی سوچو تو سہی 


جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا 


شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا زنجیر پڑی دروازے میں 


کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانا کیا 


پھر ہجر کی لمبی رات میاں سنجوگ کی تو یہی ایک گھڑی 


جو دل میں ہے لب پر آنے دو شرمانا کیا گھبرانا کیا 


اس روز جو ان کو دیکھا ہے اب خواب کا عالم لگتا ہے 


اس روز جو ان سے بات ہوئی وہ بات بھی تھی افسانا کیا 


اس حسن کے سچے موتی کو ہم دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں 


جسے دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں وہ دولت کیا وہ خزانا کیا 


اس کو بھی جلا دکھتے ہوئے من اک شعلہ لال بھبوکا بن 


یوں آنسو بن بہہ جانا کیا یوں ماٹی میں مل جانا کیا 


جب شہر کے لوگ نہ رستا دیں کیوں بن میں نہ جا بسرام کرے 


دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانا کیا




الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا









الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا 


دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا 








عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند 


یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا 








حرف نہیں جاں بخشی میں اس کی خوبی اپنی قسمت کی 


ہم سے جو پہلے کہہ بھیجا سو مرنے کا پیغام کیا 








ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی 


چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا 








سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں 


بانکے ٹیڑھے ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا 








سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی 


کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا 








کس کا کعبہ کیسا قبلہ کون حرم ہے کیا احرام 


کوچے کے اس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا 








شیخ جو ہے مسجد میں ننگا رات کو تھا مے خانے میں 


جبہ خرقہ کرتا ٹوپی مستی میں انعام کیا 








کاش اب برقعہ منہ سے اٹھا دے ورنہ پھر کیا حاصل ہے 


آنکھ مندے پر ان نے گو دیدار کو اپنے عام کیا 








یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے 


رات کو رو رو صبح کیا یا دن کو جوں توں شام کیا 








صبح چمن میں اس کو کہیں تکلیف ہوا لے آئی تھی 


رخ سے گل کو مول لیا قامت سے سرو غلام کیا 








ساعد سیمیں دونوں اس کے ہاتھ میں لا کر چھوڑ دیئے 


بھولے اس کے قول و قسم پر ہائے خیال خام کیا 








کام ہوئے ہیں سارے ضائع ہر ساعت کی سماجت سے 


استغنا کی چوگنی ان نے جوں جوں میں ابرام کیا 








ایسے آہوئے رم خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی 


سحر کیا اعجاز کیا جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا 








میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو 


قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا 







ویڈیو











مہدی حسن


Urdu Studio


بھارتی وشواناتھن


بیگم اختر


فرانسس ڈبلیو پریچیٹ


RECITATIONS


شمس الرحمن فاروقی


احمد محفو

اشعار مرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں





اشعار مرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں 


کچھ شعر فقط ان کو سنانے کے لیے ہیں 


اب یہ بھی نہیں ٹھیک کہ ہر درد مٹا دیں 


کچھ درد کلیجے سے لگانے کے لیے ہیں 


سوچو تو بڑی چیز ہے تہذیب بدن کی 


ورنہ یہ فقط آگ بجھانے کے لیے ہیں 


آنکھوں میں جو بھر لو گے تو کانٹوں سے چبھیں گے 


یہ خواب تو پلکوں پہ سجانے کے لیے ہیں 


دیکھوں ترے ہاتھوں کو تو لگتا ہے ترے ہاتھ 


مندر میں فقط دیپ جلانے کے لیے ہیں 


یہ علم کا سودا یہ رسالے یہ کتابیں 


اک شخص کی یادوں کو بھلانے کے لیے ہیں



')