Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Friday, January 29, 2016

اگر وہ رقص کر رہا ہے، ٹھیک ہے، درست ہے



اگر وہ رقص کر رہا ہے، ٹھیک ہے، درست ہے
اگر وہ میری موت پر ملول ہے، فضول ہے

Thursday, January 28, 2016

Wednesday, January 27, 2016

جہاں احساس نہیں ہوتا






جہاں احساس نہیں ہوتا وہاں انسان نہیں گدھ بستے ہیں اور 

گدھوں کے شہر میں انسان کو مر ہی جانا چاہیئے۔




سلگتے رہو_______اب عمر بھر


سلگتے رہو_______اب عمر بھر

مجھے پا کے بھی کھو دیا کیوں



اگر تم چاہ سکتے تھے




اگر تم چاہ سکتے تھے
تو نبھا بھی سکتے تھے


Maine sare khuwabon ko Aaj phir nikala hai...


Maine sare khuwabon ko
Aaj phir nikala hai...

Sochta hoon hairat se
Yeh to ab bhi zinda hain !


میرے سبھی قاتل،



میرے سبھی قاتل،

دل و جان سے میرے عاشق تھے


Thursday, January 21, 2016

میں کبھی ان کے دل میں رہتا تھا


میں کبھی ان کے دل میں رہتا تھا


اب بھی رہتا تو ہوں وہیں، لیکن





Monday, January 18, 2016

اس کی نگاہ بدلنے سے پہلے کی بات ہے


اس کی نگاہ بدلنے سے پہلے کی بات ہے

میں آسمان پر تھا ، ستارہ زمین پر


ﺳﭻ ﯾﮧ ﮨﮯﮐﮧ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﯿﻦ ﮐﺴﯽ ﭘﻞ


ﺳﭻ ﯾﮧ ﮨﮯﮐﮧ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﯿﻦ ﮐﺴﯽ ﭘﻞ
ﮔﺮ ﺻﺒﺮ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﺗﻮ ﺍﺩﺍﮐﺎﺭﯼ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ


یہیں ستاروں بھری جھیل کے کنارے پر


یہیں ستاروں بھری جھیل کے کنارے پر

پڑی ہوئی تھی محبت مری ہوئی میری



یارب اب تیری فردوس پہ حق ہے میرا


یارب اب تیری فردوس پہ حق ہے میرا


تو نے اس دور کے دوزخ میں جلایا ہے مجهے


Saturday, January 16, 2016

مجھے پتھر کی صورت ہی سہی، زندہ تو رہنا ہے سو،


مجھے پتھر کی صورت ہی سہی، زندہ تو رہنا ہے  سو،
 میں ہر واقعہ منظر بہ منظر بھول جاتا ہوں


Tuesday, January 5, 2016

یقیں کی آخری حد تک


یقیں کی آخری حد تک
یقیں ہے اور دعویٰ بھی
کہ رخصت کرکے بھی اکثر
نظر کی آخری حد تک
مجھے وہ دیکھتا ہوگا


دوڑ دوڑ کے قدم ملاتا ہوں


دوڑ دوڑ کے قدم ملاتا ہوں

زندگی کتنی تیز چلتی ہے 


فقط یہ بڑھتا ہوا ''دستِ دوستی '' ہی نہیں


فقط یہ بڑھتا ہوا ''دستِ دوستی '' ہی نہیں

ہمیں قبول ہے وہ بھی ،جو آستین میں ہے


ﭨﮭﻨﮉﮮ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﮐﺮ ﺁﻧﺴﻮ

بھکاری موت مانگے ہے
بھکاری تھک چُکا سائیں



ﭨﮭﻨﮉﮮ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﮐﺮ ﺁﻧﺴﻮ 
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ۔ﺩﺭﯾﺎ۔ ﺟﻼ ﺩﯾﺎ ﺳﺎﺋﯿﮟ !



میں شاعر ہوں مجھ سے زرا سوچ کے الجهنا


میں شاعر ہوں مجھ سے زرا سوچ کے الجهنا
لفظوں میں لکھ دوں گا لہجوں کی تلخیاں.....!!!


Sunday, January 3, 2016

جُستجُو





پتا ھے! یہ جو جُستجُو ھے ناں۔۔۔۔! یہ بہت بے چین رکھتی ھے۔ اِس میں مبتلا شخص اُس وقت تک قرار نہیں پاتا جب تک کہ وہ ِاسے مکمل نہ کرلے۔ کسی شے کی جُستجُو کرنا یہ تو فطری عمل ھے، یہاں تک بات سمجھ میں بھی آتی ھے۔ لیکن اُسی جُستجُو کو حاصل کرنے کی خاطر حد سے گزر جانا سمجھ میں نہیں آتا۔ کیونکہ خُدا کی بنائی اِس کائنات میں سب کی حدود مقرر ہیں اور کوئی شے ان حدود سے تجاوز نہیں کرتی ھے۔ انسان چونکہ ہر معاملے میں بااختیار ھے مگر کسی چیز کے حصول کی جہاں بات آتی ھے وہاں اُسے بھی مقدر کے آگے گھٹنے ٹیکنا پڑتے ہیں۔


روزمرہ کی زندگی کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو ہر شخص کسی نہ کسی کھوج میں مصروفِ عمل ھے۔ منزل تک پہنچنے کا اگر راستہ معلوم ہو تو منزل تک رسائی قدرے سہل اور آسان ہو جاتی ھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمت اور مضبوط عزم کا ہونا بھی لازم ھے، کیونکہ اکثر و بیشتر ہم زندگی کی راہ میں حائل دشواریوں اور کٹھنائیوں کے سبب حوصلے ہار جاتے ہیں اور شکست سے دوچار ہونا پڑتا ھے۔ جبکہ کوئی جُستجُو ایسی بھی ہوتی ھے جس میں منزل کی راہ کا علم اور عزم و حوصلہ بھی اُس تک رسائی حاصل کرنے میں معاون ثابت نہیں ہو پاتا۔۔۔


جیسے کہ ایک چکور چاند تک پہنچنے کی جُستجُو لیئے جنون کے ساتھ اِس عزم سے سفر شروع کر دیتا ھے کہ اُسے پا لے گا۔ اِس نا ختم ہونے والے سفر میں وہ مسلسل چاند کی جانب اپنی اُڑان جاری رکھتا ھے حتی' کہ اُس کا جنون اُسے موت کے دہانے پہ لا کھڑا کرتا ھے۔۔۔۔ اِسی طرح کبھی بارش کے بعد پروانوں کے جھرمٹ کو شمع کے گِرد مچلتے دیکھا ھے؟ پروانے کو بھی شمع کو چُھونے کی جُستجُو ہوتی ھے۔۔۔۔۔۔ پر وہ بھی شمع کے قریں پہنچ کے جل کر چکور کی مانند دم ہار جاتا ھے۔ پر اِن کی ایک بات مجھے بہت اچھی لگتی ھے۔۔۔ یہ دستبردار نہیں ہوتے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اِن کی جُستجُو لاحاصل ھے پھر بھی جاں فشانی کے ساتھ اپنی جُستجُو کی طرف لپکتے ہیں کہ اُسے پا لینگے۔ مگر یہ عاقبت نا اندیش یہ نہیں جانتے کہ جان لیواہ ھے لاحاصل کی تمنا کرنا۔۔۔۔














اِس پوری گفتگو کا لبِ لباب یہ ٹھہرا کہ کسی کی جُستجُو کرنا کوئی بُری بات نہیں اور نہ ہی اُسے حاصل کرنا معیوب ھے، بات جنون پہ آ کر بگڑتی ھے۔۔۔۔ یہ پا لینے کا جنون ہی ھے جو تمام حدود عبور کرواتا ھے۔ شائد محبت ھے ہی جنون کا نام۔۔۔۔ کسی پہ خود کو مٹا دینا ہی محبت ھے۔۔۔۔ جب جنون ہی نہیں تو وہ محبت کیسی؟؟؟ اِسی لیئے تو لوگوں کو چکور اور پروانے کی مانند فنا ہوتے دیکھا ھے۔ بظاہر تو یہ اپنی اپنی جُستجُو کو حاصل کرنے کی محبت میں فنا ہو جاتے ہیں پر حقیقت میں امر ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔














Saturday, January 2, 2016

دو مناظر







میرے سامنے دو مناظر ہیں، دو تصاویر، ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ موجود لیکن متضاد تصاویر اور میں ان دونوں تصاویر میں ایک مِس فٹ عنصر
میری کھڑی کے پار پہلا منظر جیسے صدیوں سے یونہی ساکن ہے۔۔کسی مصور 
کی پینٹنگ کی طرح۔۔۔تاحدِ نگاہ برستی بارش ۔۔ایک کے بعد ایک قطرہ ایسے قطار اندر قطار اترتا چلا آتا ہے جیسے آسمان سے زمین تک پانی کی چادر ٹنگی ہوئی ہو۔ ایک مخصوص ردھم میں ہلتے درخت اور اکثر کانوں تک پہنچ جانے والی ٹِپ ٹِپ کی آواز۔ لیکن اس منظر کے سکون میں کبھی کبھی ہلچل پیدا ہو جاتی ہے اور جیسے زندگی انگڑائی لے کر اُٹھنے کی کوشش کرنے لگتی ہے۔۔۔کسی کار کے گزرنے سے، کسی چمنی سے دھواں برآمد ہونے سے، کسی پرندے کے منظر میں در آنے سے۔ اب پھر اس ابدی پینٹنگ میں زندگی نظر آ رہی ہے کہ ایک پرندہ بارش کے خلاف بغاوت کر کے گھر سے نکل آیا ہے۔۔۔۔

یہ میری نسل کے لوگوں کا ا لمیہ ہے یا خوش قسمتی کہ میرے سامنے ایک دوسرا منظر بھی ہے۔ میرے لیپ ٹاپ کی برقی اسکرین پر چلتا ہوا ڈیجیٹل منظر۔۔جس پر کھڑکی کے باہر ہونے والے عوامل کا کوئی اثر نہیں ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ یہ منظر برقی اشاروں سے تخلیق کردہ ایک فریبِ نظر کے سوا کچھ نہیں، کہ ماؤس سے کلک کرنے اور لیپ ٹاپ اسکرین پر ہاتھ لگانے سے ردعمل کا احساس سب مصنوعی ہیں۔ لیکن حقیقت سے مجاز اور قدرتی سے مصنوعی کا فرق آج مجھے اچھا لگتا ہے۔ یہی وہ منظر ہے جس پر میرے اپنے، ہزاروں میل دور میرے اپنے ہی دیس میں موجود میرے اپنے نمودار ہوتے ہیں تو میں چند لمحوں کے لیے کھڑکی کے باہر منجمد اس ازلی تصویر سے جدا ہو کر وہاں جا موجود ہوتی ہوں، ان گلی کُوچوں میں جن کا طواف میری روح اب بھی کرتی ہے۔ اور اسی مصنوعی منظر پر بار بار کچھ نئے چہرے بھی اُبھر آتے ہیں۔ زندہ، جوان، شوخ، چنچل، اور شرارت بھری آنکھوں والے کھلکھلاتے چہرے جنہیں ایک دو سال پہلے تک میں جانتی بھی نہ تھی ۔ لیکن اب وہ جیسے میرا خاندان ہیں۔ میرےاس خاندان کی جانب کھُلنے والی کھڑکی، مجھے میرے اپنوں کی یاد دلاتے، حوصلہ دلاتے میرے اپنے، میرا سرمایہ، میرے گروپ کے ذہین ترین دماغ۔۔۔جن کا ساتھ میرے لیے باعثِ 
حوصلہ اور باعثِ فخر ہے۔



دو مناظر





میرے سامنے دو مناظر ہیں، دو تصاویر، ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ موجود لیکن متضاد تصاویر اور میں ان دونوں تصاویر میں ایک مِس فٹ عنصر
میری کھڑی کے پار پہلا منظر جیسے صدیوں سے یونہی ساکن ہے۔۔کسی مصور
کی پینٹنگ کی طرح۔۔۔تاحدِ نگاہ برستی بارش ۔۔ایک کے بعد ایک قطرہ ایسے قطار اندر قطار اترتا چلا آتا ہے جیسے آسمان سے زمین تک پانی کی چادر ٹنگی ہوئی ہو۔ ایک مخصوص ردھم میں ہلتے درخت اور اکثر کانوں تک پہنچ جانے والی ٹِپ ٹِپ کی آواز۔ لیکن اس منظر کے سکون میں کبھی کبھی ہلچل پیدا ہو جاتی ہے اور جیسے زندگی انگڑائی لے کر اُٹھنے کی کوشش کرنے لگتی ہے۔۔۔کسی کار کے گزرنے سے، کسی چمنی سے دھواں برآمد ہونے سے، کسی پرندے کے منظر میں در آنے سے۔ اب پھر اس ابدی پینٹنگ میں زندگی نظر آ رہی ہے کہ ایک پرندہ بارش کے خلاف بغاوت کر کے گھر سے نکل آیا ہے۔۔۔۔


یہ میری نسل کے لوگوں کا ا لمیہ ہے یا خوش قسمتی کہ میرے سامنے ایک دوسرا منظر بھی ہے۔ میرے لیپ ٹاپ کی برقی اسکرین پر چلتا ہوا ڈیجیٹل منظر۔۔جس پر کھڑکی کے باہر ہونے والے عوامل کا کوئی اثر نہیں ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ یہ منظر برقی اشاروں سے تخلیق کردہ ایک فریبِ نظر کے سوا کچھ نہیں، کہ ماؤس سے کلک کرنے اور لیپ ٹاپ اسکرین پر ہاتھ لگانے سے ردعمل کا احساس سب مصنوعی ہیں۔ لیکن حقیقت سے مجاز اور قدرتی سے مصنوعی کا فرق آج مجھے اچھا لگتا ہے۔ یہی وہ منظر ہے جس پر میرے اپنے، ہزاروں میل دور میرے اپنے ہی دیس میں موجود میرے اپنے نمودار ہوتے ہیں تو میں چند لمحوں کے لیے کھڑکی کے باہر منجمد اس ازلی تصویر سے جدا ہو کر وہاں جا موجود ہوتی ہوں، ان گلی کُوچوں میں جن کا طواف میری روح اب بھی کرتی ہے۔ اور اسی مصنوعی منظر پر بار بار کچھ نئے چہرے بھی اُبھر آتے ہیں۔ زندہ، جوان، شوخ، چنچل، اور شرارت بھری آنکھوں والے کھلکھلاتے چہرے جنہیں ایک دو سال پہلے تک میں جانتی بھی نہ تھی ۔ لیکن اب وہ جیسے میرا خاندان ہیں۔ میرےاس خاندان کی جانب کھُلنے والی کھڑکی، مجھے میرے اپنوں کی یاد دلاتے، حوصلہ دلاتے میرے اپنے، میرا سرمایہ، میرے گروپ کے ذہین ترین دماغ۔۔۔جن کا ساتھ میرے لیے باعثِ
حوصلہ اور باعثِ فخر ہے۔



Friday, January 1, 2016

کس قدر غنیمت تھا خود سے بے خبر رہنا


کس قدر غنیمت تھا خود سے بے خبر رہنا
سوچتا ہوں کیوں میں نے آگہی کی خواہش کی


میں اسے دیکھ کہ جیتا ہوں خبر تھی اس کو


میں اسے دیکھ کہ جیتا ہوں خبر تھی اس کو
اپنی تصویر میرے گھر سے اٹھا لی اس نے



اس نے چاہا ہی نہیں دل سے وگرنہ


اس نے چاہا ہی نہیں دل سے وگرنہ

مجھ کو ٹھکراتے ہوے کچھ تو اذیت ہوتی___!



ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ_____ ﺁﺯﺍﺩ


ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ_____ ﺁﺯﺍﺩ
ﺟﺲ ﭘﺮﻧﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻥ ﺗﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ


')