Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Thursday, August 4, 2016

Qandeel Baloch



ﭘﮩﻠﮯ ﺍﻣﺠﺪ ﺻﺎﺑﺮﯼ ، ﭘﮭﺮ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺴﺘﺎﺭ ﺍﻳﺪﮬﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﻗﻨﺪﯾﻞ ﺑﻠﻮﭺ ۔۔

ﺗﻴﻦ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺷﺨﺼﯿﺎﺕ ، ﺗﻴﻦ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺷﻌﺒﮯ ، ﺗﯿﻦ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﮐﺎﺭﮨﺎﮮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ۔۔۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺳﺐ ﮐﺎ ﺍﻳﮏ ۔۔۔ ﺳﺐ ﺍﭘﻨﮯ ﺗﺨﻠﻴﻖ ﮐﺎﺭ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﮱ ۔ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﻴﮟ ﮐﻴﺎ ﮐﯿﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﮔﻴﺎ ، ﻓﺘﻮﮮ ﺑﮭﯽ ، ﻣﺬﺍﻕ ﺑﮭﯽ ، ﺳﻨﺠﻴﺪﮦ ﺑﺎﺗﻴﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻓﻮﺍﮨﻴﮟ ﺑﮭﯽ ۔۔۔

ﮨﻢ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﮯ ۔ ﮨﻤﯿﮟ ﻧﮩﻴﮟ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻣﻮﺕ ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﺁﮰ ﮔﯽ ؟ ﻟﯿﮑﻦ ﻓﯿﺲ ﺑﮏ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﻢ ﺍﺯ ﮐﻢ ﺍﺗﻨﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﺗﻮﮨﻮ ﮔﻴﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻮﺵ ﮨﻮ ﮔﺎ ، ﮐﻮﺋﯽ ﻏﻤﺰﺩﮦ ﮨﻮ ﮔﺎ ، ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﻴﺠﻨﺎ ﭼﺎﮨﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﮩﻨﻢ ﻭﺍﺟﺐ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﮮ ﮔﺎ ، ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺰﺍﺣﻴﮧ ﺳﭩﻴﭩﺲ ﻟﮕﺎﮰ ﮔﺎ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﮐﮫ ﺑﮭﺮﺍ۔۔۔ ﻟﻴﮑﻦ ﺩﻝ ﺳﮯ ﻣﻐﻔﺮﺕ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺻﺮﻑ ﻭﮨﯽ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺟﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﮯ ﮨﻴﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﻴﮟ ﮐﮧ ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﺍﺏ ﺍﻭﭘﺮ ﮨﻮ ﮔﺎ ۔


ﮨﻢ ﮐﻴﻮﮞ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻴﮟ ﮐﮧ ﺳﺰﺍ ﺍﻭﺭ ﺟﺰﺍ ﺩﻳﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮨﮯ ۔ ﮨﻢ ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﺎ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﺍﺱ ﺫﺍﺕ ﺑﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﺳﭙﺮﺩ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺻﺮﻑ ﺩﻋﺎﮰ ﻣﻐﻔﺮﺕ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﻴﮟ ﻣﺎﻧﮓ ﺳﮑﺘﮯ؟ ﮨﻢ ﮐﻴﻮﮞ ﻭﮦ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﻣﻴﮟ ﻟﻴﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺲ ﭘﺮﮨﻤﯿﮟ ﺍﻳﮏ ﭘﺮﺳﻨﭧ ﺑﮭﯽ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﻧﮩﻴﮟ ﻣﻠﻨﮯ ﻭﺍﻻ ۔ ﮨﻢ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻣﻮﺕ ﭘﺮ ﻣﺰﺍﺣﻴﮧ ﺳﭩﻴﭩﺲ ﻟﮕﺎ ﮐﺮﺍﭘﻨﯽ ﺑﮯﺣﺴﯽ ﮐﺎ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﮐﺴﯽ ﻣﻐﻔﺮﺕ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﻭﺍﻟﮯ ﺳﭩﻴﭩﺲ ﭘﺮ ﺑﮯﺣﺲ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﮯﺣﺲ ﮐﻤﻨﭩﺲ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺟﻮ ﺩﻟﯽ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﻧﺎ ﻣﺸﮑﻞ ﮨﮯ ۔ ﮨﻢ ﯾﮧ ﮐﯿﻮﮞ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻴﮟ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮨﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﻓﮑﺮ ﮐﺮﻳﮟ ، ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﮐﻮ ﺳﺪﮬﺎﺭﯾﮟ۔ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟


ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﻧﺎﻃﮯ ﮐﻢ ﺍﺯ ﮐﻢ ﮨﻢ ﺍﺗﻨﺎ ﺗﻮ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﻴﮟ ﻧﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺩﻋﺎﮰ ﻣﻐﻔﺮﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﻇﺮﻑ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻣﺰﺍﺣﻴﮧ ﺳﺘﯿﭩﺲ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﻟﮕﺎﺋﻴﮟ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮯ ﻋﻴﺐ ﮔﻨﻮﺍﺋﻴﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﻏﯿﺒﺖ ﮐﮯ ﺯﻣﺮﮮ ﻣﻴﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻇﺮﻑ ﮐﻮ ﺑﻠﻨﺪ ﻓﺮﻣﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﮟ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﺩﮮ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻋﺎﮰ ﻣﻐﻔﺮﺕ ﮐﺮﻳﮟ ﻧﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﯿﺐ ﺟﻮﺋﯽ ﮐﺮﻳﮟ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﺩﺍﺭ ﺑﻨﯿﮟ ۔ ﺁﻣﻴﻦ



قندیل بلوچ، خدا سے ہماری شکایت نہ کرنا


قندیل بلوچ جب کوئی بیان دیتی تھی یا اپنی ویڈیو جاری کرتی۔ سوشل میڈیا پراس کی کی کہی بات وائیرل ہو جایا کرتی۔ بیزار کن سی پوسٹ کرنا اور کافی احمقانہ ویڈیو بیانات دینا اس کا خاصہ تھا۔ اب کیا حماقت کرے گی یہ ایک اٹریکشن تھی جو اس کے ساتھ قائم ہو گئی تھی۔


نہ وہ کوئی اچھی فنکارہ تھی۔ نہ اس کا تعلق کسی آسودہ گھرانے سے تھا۔ اس کی ذات سے جڑی ہر بات ہی ایک سکینڈل تھی۔ کپتان کی شادی کی خبریں آنے پر اس کا ایک بددعا قسم کا جلا کٹا بیان آیا کہ یہ شادی بھی ناکام ہو گی۔ قندیل کی حرکتوں سے اوازار ہو کر بھی آپ مسکرانے پر مجبور ہو ہی جاتے تھے۔


آج اسے قتل کر دیا گیا۔ اس کو اپنے بھائی نے گلا دبا کر مار دیا۔ کچھ دن پہلے اس کے ایک خاوند اور ایک بچے کی خبریں میڈیا پر چلتی رہیں تھی۔ پھر کسی رپوٹر نے ایک عدد مزید خاوند بھی ڈھونڈ لیا تھا۔ ایک بلوچ جرگے کی بھی اطلاعات آئیں تھیں۔ جس میں قندیل کی مذمت کی گئی تھی کہ وہ اپنے نام سے بلوچ ہٹائے۔


قندیل ایک ایسا کیس ہے جو ہمارے بیمار معاشرتی روئیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ تو ناکام تھی ہے لیکن اس سے متعلق لوگ بھی تو ناکام ہو گئے۔ خاوند اس کے ساتھ چلنے میں ناکام رہا۔ شو بز انڈسٹری اسے کام دینے میں ناکام رہی۔ میڈیا نے اسے بدنام کرنے میں اپنا حصہ ڈالا۔ اسے شہرت چاہئے تھی جو اس نے حاصل کر لی۔


کسی نے بھی اس کے گھریلو حالات پر غور نہیں کیا۔ اس کی غربت پر اس کی معاشی حالت پر۔ روٹی کمانے کا کیا طریقہ اس کے پاس بچا تھا۔


مظفر گڑھ جو قندیل کا آبائی علاقہ ہے۔ وہاں ایک دوست سے بات ہوئی تو اس کا بتانا تھا کہ ہم تو قندیل کی قوم قبیلے کے لوگوں کا خوب مذاق اڑاتے ہیں۔ تب سن کر ہم بھی مسکرائے تھے۔ اس مذاق نے ہی ایسی باتوں نے ہی اس کی زندگی کا سفر جلدی تمام کیا ہے۔


بدقسمتی دیکھیں ہم ایک مذہبی معاشرہ ہونے کا دعوی رکھتے ہیں۔ کئی اقسام کے فرقے ہمارے ہاں موجود ہیں۔ مذہب کی ہر قسم کی تشریح qandeelماننے والوں کے پاس قندیل جیسوں کے لئے برداشت کا کوئی پیغام نہیں ہے۔ قندیل سے ایک مذہبی شخصیت کا رابطہ بھی ہوا تھا۔ مفتی عبدالقوی صاحب کی اس سے ملاقات ہوئی۔ مفتی صاحب نے اپنا سکینڈل تو بنوا لیا نام کو بٹا بھی لگوا لیا۔ قندیل کو سلامتی کا تحفظ کا امن کا عزت کا کوئی پیغام دینے میں وہ ناکام رہے۔


قندیل نے اپنے لئے تحفظ مانگا تھا سرکار سے جو نہیں دیا گیا۔ کیوں دیا جاتا بلکہ ایسی درخواست سنی بھی کیوں جاتی۔ یہ کام تو ہمارے ہاں لوگوں کی حیثیت دیکھ کر ہوتے ہیں۔ بطور انسان ان سہولیات تحفظات پر ہماری ریاست ہمارا معاشرہ ہمارا 

کوئی حق کدھر تسلیم کرتی ہے۔



قندیل کو ہم سب نے مل کر مارا ہے۔ ہمارے پاس اسے دینے کو کچھ تھا ہی نہیں۔

بھائی بھی اس کے پاس گیا تو سر پر چادر رکھنے سمجھانے کی بجائے گلا دبانے کو۔


امید ہے کہ وہ خدا سے ہماری شکایت نہیں کرے گی اپنے لوگوں کی۔ خدا تو ہمیں جانتا ہی ہے۔ ایدھی صاحب پہلے ہی جا چکے ہیں انہوں نے کوئی جھولا قندیل جیسوں کے لئے بھی وہاں ضد کر کے بنوا لیا ہو گا۔ جنہیں ہمارا معاشرہ دنیا میں لاتا تو ہے انہیں زندگی منانے نہیں دیتا۔



No comments:

Post a Comment

')