پہلی بار یہ سوال اُس نے اپنے آپ سے کیا تھا۔ اور پھر ایک گہری سانس لے کر
خاموش ہو گیا۔ لحظہ بھر کے توقف کے بعد لمحہ بہ لمحہ یہی سوال دہراتا جا رہا تھا کہ "کیا میں پاگل ہوں؟ کیا میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واقعی پاگل ہوں؟" جب سماعتوں سے خلافِ معمول کوئی بات یا کوئی لفظ ٹکرائے تو پھر وہ سوال بن جاتا ہے۔ یہ جو دُنیا جس میں ہم رہتے ہیں،حقیقت و سرابوں کی دُنیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کانٹوں و گلابوں کی دُنیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نظاروں و حجابوں کی دُنیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گناہوں و ثوابوں کی دُنیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سوالوں و جوابوں کی دُنیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہیں اِس دُنیا میں کسی کا جواب کسی کے لیئے سوالات کھڑے کر دیتا ہے۔ اور کسی کے سوال میں جواب موجود ہوتا ہے۔ بسا اوقات آدمی کے چاروں اطراف جواب موجود ہوتے ہیں جو اُسے اپنے آپ سے سوال کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ کیا عجیب بات ہے ناں؟ اپنے اردگرد جواب موجود ہوتے ہوئے بھی بندہ خود سے سوال کرے۔ اور کبھی اندر سے اُبھرنے والے سوال کا باہر کسی کے پاس بھی کوئی جواب موجود نہ ہو۔ پتہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم خود سے سوال کیوں کرتے ہیں؟ جبکہ ہمیں پہلے ہی اس کا جواب، اطراف کے لوگوں سے مل چُکا ہوتا ہے۔ شاید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لیئے کہ ہماری حقیقت ہمارے اندر پوشیدہ ہوتی ہے۔ اندر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت اندر جیسے کوئی رہبر بیٹھا ہو، جو ہمیں صحیح راستہ دکھاتا ہو۔ جو ہمیں ہم سے زیادہ اور بہتر جانتا ہو۔ صحیح و غلط کی پہچان کرواتا ہو۔ ہمارا آئینہ ہو جیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس میں دیکھ کر ہم خود کو سنوارتے ہوں۔ اِسی لیئے جب تک ہمارے اندر سے فیصلہ نہیں آجاتا، تب تک باہر کے جوابوں سے ہماری پوری طرح تشفی نہیں ہو پاتی۔
"وہ" بھی بیٹھا اسی لیئے اپنے آپ سے پوچھ رہا تھا کہ کیا میں پاگل ہوں؟ کیا میں کسی کے لیئے ایذا یا تکلیف کا باعث بنا ہوں؟ میں نے کسی کا حق مارا ہے، یا پھر کسی کو دھوکا دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ مگر اُسے کوئی جواب نہ ملا۔ پتا ! جب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "انسان کے ذہن میں کئی سوالات ایک ساتھ شور مچا رہے ہوں، اور دِل کے پاس کوئی جواب نہ ہو اور اُس نے چُپ سادھ رکھی ہو۔ تو ایسے میں انسان کی حالت سمندر جیسی ہو جاتی ہے۔ باہر ساحل پہ لہروں کا شور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اندر خاموشی ہی خاموشی، گہرا سناٹا ہو جیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساری زندگی یہی انسان کئی طرح کے سوالوں کا سامنا کرتا رہتا ہے۔ ان میں چند ایک یا پھر کئی نظر انداز بھی کرتا چلا جاتا ہے۔ مگر جو سوال اُس کی ذات کے متعلق ہو۔ وہ اُسے چاہ کر بھی نظر انداز نہیں کر پاتا۔ بلکہ وہ سوال اُس کی زندگی کو ہی سوالیہ نشان بنا دیتا ہے۔ وہ تب تک سُکھ کا سانس نہیں لیتا جب تک کہ وہ اس سوال کا جواب نہ پالے۔ یہی سوال ہی تو ہے جو انسان کو جلوت سے خلوت میں اور کبھی خلوت سے جلوت میں پہچاتا ہے۔ یہ سوال ہی تو ہے جو انسان کو دشت میں مارا مارا پھراتا ہے، تو کبھی صحراؤں، بیابانوں کی خاک چھنواتا ہے۔ یہ سوال ہی تو ہے جو ہاتھوں میں کاسہ گدائی پکڑا کر بندوں کے حضور دستِ سوال دراز کرنے پہ مجبور کرتا ہے۔
اُسے بھی سوال ہی نے بے چین کر رکھا تھا۔ اچانک سے اُسے خیال آیا کہ کیوں نہ پاگل خانے جایا جائے، شاید وہاں سے کوئی جواب مل جائے کہ پاگل کیسے ہوتے ہیں؟َ کسی جاننے والے سے پاگل خانے کا پتہ معلوم کرکے وہ وہاں جا پہنچا۔ اندر داخل ہوتے وہ اپنے گردوپیش کا جائزہ لینے لگا۔ وہاں کا ماحول بھی اُسے باہر کی فضا سے مماثلت رکھتا محسوس ہوا۔ بالکل ویسی ہی ہلکی ہلکی دھوپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آسمان پہ بادلوں کو آگے کی جانب دھکیلتی ہوئی ہوائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زمین پہ سایہ کرتے بادل قطار در قطار ہجرت کرتے جا رہے تھے۔
وہ آگے بڑھ کر باغیچے سے ہوتا ہوا جاکر اُس عمارت کے اندر داخل ہوا اور وہیں نزدیک پڑے ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ جس مقصد سے وہ یہاں آیا تھا اُسی کو مدنظر رکھتے ہوئے وھاں موجود لوگوں کو دیکھنے میں مشغول ہو گیا۔ اسی ضمن میں اُس کی نگاہ ایک ڈیڑھ فرلانگ دور بیٹھے ایک شخص پر پڑی جو اُسے دیکھ کر ہنس رہا تھا۔ پہلے تو وہ اُسے اس طرح سے ہنستا دیکھ کر گھبرایا، مگر پھر اپنی ہمت بڑھاتے ہوئے اس شخص کی جانب دیکھ کر ہلکی سی مگر بناوٹی مسکراہٹ سے تبادلہ کرنے لگا۔ اور دل ہی دل میں کہنے لگا کہ آخر یہ شخص مجھ پہ کیوں ہنس رہا ہے؟َ شاید وہ مجھے پاگل سمجھ رہا ہو، جو ابھی ابھی کسی پاگل خانے سے فرار ہو کر یہاں آیا ہو۔
وہاں سے نظریں ہٹیں، تو قریب ہی ایک کمرے کی دیوار سے ملحقہ ایک کھڑکی کے نیچے زمین پہ بیٹھا ایک شخص نظر آیا، جو محو حیرت نظر آ رہا تھا۔ معلوم نہیں وہ کن خیالوں میں غرق تھا۔ شاید وہ بھی خود سے یہی سوال کر رہا ہو کہ کیا میں پاگل ہوں؟ وہ کافی دیر تک اسے ٹک ٹکی باندھے دیکھتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اُس شخص میں سوائے پلکوں کی جنبش کے اور کوئی حرکت نظر نہ آئی۔ خدا جانے اس کے اندر کیا طلاطم برپا ہو گا جس نے اسے باہر سے ساکت کر چھوڑا تھا۔ اُسے دیکھ کر گھٹن سی محسوس ہونے لگی تو وہ باہر آکر باغیچے میں موجود ایک کیاری کی پگڈنڈی پر بیٹھ گیا۔ وہاں اُسے ٹہلتے ہوئے ایک شخص نظر آیا جو کہ تیزی اور پھرتی کے ساتھ گھاس پر چہل قدمی کر رہا تھا۔ کبھی ٹہلتے ٹہلتے باغیچے کے اُس کونے تک پہنچ جاتا تو کبھی اس نکڑ پہ آجاتا۔ وہ چلتے چلتے مسلسل منہ میں کچھ بڑبڑا رہا تھا۔ جیسے وہ اپنے آپ سے ہی باتیں کیئے جا رہا تھا، کیئے جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کافی دیر تک اُسے تکتا رہا۔ مگر اُس شخص کی باتیں تھیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔ مسلسل بولتا چلا جا رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ انسان زندگی میں سب سے زیادہ باتیں اپنے آپ سے کرتا ہے۔ اندر ہی اندر وہ بولتا رہتا ہے۔ اور وہ شخص بھی تو یہی کر رہا تھا، مگر فرق صرف اتنا تھا کہ اُس کی اندر کی باتیں اب اُس کی زبان سے جاری ہونے لگی تھیں۔ اور شاید یہی وجہ بنی اُس کے پاگل خانے تک پہنچنے کی۔
وھاں اُس دن کا ایک طویل حصہ گزارنے کے بعد اُسے وھاں کوئی ایسا شخص نظر نہ آیا جسے دیکھ کر لگتا کہ اُس نے لوگوں کو ستایا ہوگا، ان کی دل آزاری یا انھیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہوگی۔ اس کے برعکس وہ یہاں یہ سوچ کر آیا تھا کہ لوگ آپس میں گتھم گتھا ہونگے، کوئی گالم گلوچ سے پیش آ رہا ہوگا تو کوئی چیزوں کی توڑ پھوڑ میں مصروف ہوگا۔ کسی کے منہ سے حسد و جلن کے باعث جھاگ نکل رہی ہوگی۔ کہیں چوری، ڈکیتی، لُوٹ کھسوٹ تو کہیں کوئی قتل و غارت میں مصروف ہوگا۔ کہیں کوئی رہنما بن کر خوبصورت شیروانی پہنے اپنی عوام الناس کو چُونا لگا رہا ہوگا تو وہیں عوام الناس بھی ایک دوسرے کو اپنی مکاری و عیاری کے جوہر دکھانے میں مصروف ہونگے۔ جہاں بلی کو دودھ کی رکھوالی دی گئی ہو گی اور محافظوں سے لٹیروں کا کام لیا جاتا ہوگا۔ مگر وہاں اُسے ایسا کچھ دکھائی نہ دیا۔ کوئی کسی کی ٹانگ نہیں کھینچ رہا تھا۔ سب اپنے آپ میں ہی مصروف تھے۔ بلکہ وھاں موجود ہر شخص کسی نہ کسی کا ستایا نظر آیا۔ یوں لگا جیسے دنیا والوں سے بھاگ کر انھوں نے یہاں آکر پناہ لی ہو۔ چونکہ یہ پاگل خانہ اس لیئے لوگوں کو یہاں رہنے والے ہر ایک کے ماتھے پہ لکھا نظر آتا ہے کہ وہ پاگل ہے۔ جیسے مسافر خانے اور مہمان خانے میں موجود لوگوں کو مسافر یا مہمان کہا جاتا ہے۔ مگر جیسے یہ ضروری نہیں کہ ہر مسافر خانے میں موجود لوگ مسافر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہر مہمان خانے میں موجود لوگ مہمان ہی ہوں۔ اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ پاگل خانے میں پاگل ہی بستے ہوں۔
ایک سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ انسان کے پاگل ہونے کے پیچھے کیا وجہ یا کیا عوامل ہوتے ہیں جن کی بدولت کوئی پاگل ہو جاتا ہے۔ یا پھر پاگل کہلایا جانے لگتا ہے؟ یوں تو اِنسان کے پاگل ہونے کی بہت سے وجوہات ہیں۔ مگر اُن سب میں سرفہرست ایک وجہ اپنے خالص و قیمتی جزبات و احساسات کو غلط جگہ ضائع کرنے سے بھی انسان پاگل کہلایا جانے لگتا ہے۔ جب انسانی جزبات کی قدر نہیں ہوتی ناں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ ٹھکرائے جاتے ہیں تو بس وہی تکلیف برداشت نہیں ہوتی۔ انسان جسمانی اذیت تو جیسے تیسے برداشت کرلیتا ہے، ہر طرح کے حالات سے سمجھوتا کرکے زندگی گزار لیتا ہے مگر جب اس کے خالص جزبات کو جب ٹھیس پہنچتی ہے تو وہ اس ذہنی اذیت کی تاب نہیں لا سکتا۔ اور لوگ اُسے پاگل، پاگل کہنے لگتے ہیں۔ اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ اپنے آپ ہی سے سوال کرنے لگتا ہے کہ کیا میں پاگل ہوں؟ "اس لیئے بندہ بجائے اپنے قیمتی جزبات کو غلط جگہ ضائع کرنے کے، اپنے رب کو سونپ دے۔ بندہ چاہے رب سے جیسے اپنے جزبات کا اظہار کرے وہ بُرا بھی نہیں مانتا اور نہ ہی پاگل کہتا ہے۔ بلکہ جزبات کی قدر کرتا ہے۔ یا پھر اپنے جزبات اُن لوگوں پہ صرف کرنے چاہئیں جنھیں اُن کی قدر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن کی زندگی میں وہ شخص خاص یا اولین اہمیت کا حامل ہے۔
سورج ڈوبنے والا تھا اور دن تقریباَ ڈھل چکا تھا۔ وہ وہاں سے باہر نکلا اور سڑک کے کنارے چلنے لگا۔ اسے یہاں آکر اُس کے سوال کا جواب مل چُکا تھا۔ اب کی بار جو اُس نے اپنے آپ سے وہی سوال کیا کہ "کیا میں پاگل ہوں؟" تو اندر سے کوئی چنگاڑھ کر بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "ھاں تُو پاگل ہے۔ پاگل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے تُو۔ اور اب واپس پاگل خانے کی طرف جا رہا ہے۔" یہ جواب سُن کر وہ قہقہ لگا کر ہنسنے
لگا۔
No comments:
Post a Comment