نومبر کا مہینہ تھا
کہ جب میں نے جیے تھے
زندگی کے خوبصورت پل
یہی دن تھے
کہ جب میں نے ملائم نرم ہر احساس کو
لفظوں میں ڈھالا تھا
انہی ایام کی
لمبی, جواں راتوں میں ہی بنیاد رکھی تھی
کئی رنگین خوابوں کی
یہی آغاز سرما کی حسیں راتیں
کہ جب تھا چاند بھی آدھا
نہ میں سوتا , نہ تم سوتی
کسے پرواہ تھی نیندوں کی
اس اک رشتے کی بنیادوں میں کتنے رتجگے ڈالے
وہ سب لمحے
کہ جب اک دوسرے کے ساتھ
کتنے پل گزرتے تھے
کبھی باتیں محبت کی
کبھی اقرار کے قصے
کبھی عہد وفا کرنا
کبھی خود پر بہت ہنسنا
کسی انجام سے انجان سے ہو کر
ہم آگے بڑھتے جاتے تھے
ٹھٹھرتی ٹھنڈ میں, اپنا تعلق
گرم جوشی سے پھلا پھولا
وہ روز و شب
ہمارے ربط کی معراج تھے شاید
مگر دیکھو
گزرتے وقت کو, موسم کو کوئی روک کب پایا
طلمساتی وہ پل سارے
پگھلتی برف کی گرمی نہ سہہ پاۓ
اتر آئی عجب اک سرد مہری درمیاں اپنے
وہی رشتہ جو آتی سردی میں معراج تک پہنچا
وہ جاتی سردیوں کا ڈر نہ سہہ پایا
تھپیڑے دھوپ کے
گرمی , تمازت وہ نہ سہہ پایا
یوں وہ انجام کو پہنچا
وہ ساری بسری یادیں
بھولی باتیں ساتھ میں لےکر
دسمبر پھر چلا آیا
No comments:
Post a Comment