اِختیار اور مجبوری۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کب سے سوچ رہا تھا کہ اِن دو الفاظ کا آپس میں کتنا گہرہ تعلق ہے ناں؟ دِن رات کی مانند جو ہمیشہ ایک دوسرے سے منسلک رہتے ہیں۔ ہم اگر زندگی کے کسی بھی مقام کا مشاہدہ کرلیں جہاں ہم نے اپنے اختیارات کا استعمال کیا ہو۔۔۔۔۔ وہاں اُس مقام پہ ہمارا اختیار مجبوری میں بدل دیا گیا۔ ہمارے اختیار کے استعمال میں کوئی نہ کوئی مجبوری آڑے آ گئی۔۔۔۔
ہماری زندگی ایک بہتی ندّی کی مانند ہے، جس کے بہاؤ کے ساتھ ہم بہتے جا رہے ہیں۔ اور زندگی میں اِختیارات کا استعمال یوں ہے جیسے ندّی کے پانی کے بہاؤ کی مخالف سمت میں تیراکی کرتے ہوئے کنارے پہ پہنچنے کی کوشش کرنا۔ بہاؤ سے مزاحمت کرتے کرتے مجبوریوں کی موجیں ہماری سانسیں اُکھاڑنے لگتی ہیں، ہمارے حوصلے پست کر دیتی ہیں اور پھر غوطے دے دے کر جان لے لیتی ہیں۔
اِسی طرح ایک سائل اُسے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ جس دَر پہ وہ دستِ سوال دراز کر رہا ہے آیا کہ وہاں سے اُس کی اُمید بر آئے گی؟ پھر بھی اُسے ایک اُمید ہوتی ہے، اُسے مان ہوتا ہے۔ کہ وہ خالی ہاتھ نہیں لوٹایا جائے گا۔ اور اِسی مان کے ساتھ سائل اپنا اِختیار استعمال کرتے ہوئے سوال کرتا ہے۔ اور وہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ سامنے والا دینے پہ مختار ہے اور وہ اپنا اختیار استعمال کرکے میری طلب پوری کر دے گا۔ مگر سائل کو یہ نہیں معلوم کہ بسا اوقات مختار بھی مجبور ہوتا ہے، اُس کی مراد پوری نہیں کر پاتا اور سائل مجبور ہوکر واپس چلا جاتا ہے۔ سائل کا اپنا اختیار تھا اور مختار کا اپنا۔ مگر دونوں کے اختیارات کو مجبوری نگل گئی۔ ایک مانگنے کے باوجود خالی ہاتھ لوٹنے پہ مجبور ہوا، تو دوسرا دینے کی قدرت رکھتے ہوئے بھی خالی ہاتھ لٹانے پہ مجبور ہوا۔
انسان نہ مکمل طور پہ مختار ہے اور نہ ہی مجبور۔۔۔۔۔ بس ان دنوں کے درمیان لٹکتا رہتا ہے۔ انسان کے لیئے بہتر یہی ہے کہ وہ اپنے اختیارات اُس ذات کو سونپ دے جو کہ مجبور نہیں اور نہ اُس کی کوئی مجبوری ہے۔ جو کہ مختارِ کُل ہے۔ وہی سب کی مجبوریاں دُور کرنے پہ قدرت رکھتا ہے۔ وہ اگر چاہے تو سائل کو خالی ہاتھ نہ جانے دے، اور دینے والے کی مجبوریاں بھی ختم کردے۔ ایک یہی صورت ہے جو انسان کو مختار بناتی اور مجبور بھی نہیں ہونے دیتی۔
No comments:
Post a Comment