مجھے نہیں معلوم کہ یہ محبت کیسا جزبہ ہے۔۔۔۔۔۔۔ یا ہوتا ہوگا؟
اس کا احساس یا اس کی علامات کیا ہیں میں نہیں جانتا؟ کہنے والے کہتے ہیں کہ جو سمجھ بوجھ اور عقل میں آنے سے بالاتر ہو وہ محبت ہے۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میں نے اس جزبے کو محسوس کرنے کے لیئے ہمیشہ ہی طویل سوچوں کا سہارا لیا ہے۔ اور انہی سوچوں نے وہ دریچے کھولے جن سے میں نے جھانک کر محبت کا مشاہدہ کیا۔۔۔۔
میرے اندر ہمیشہ ہلچل رہتی ہے، ویسی ہی کیفیت جیسے کسی کا کچھ قیمتی سامان کھو گیا ہو اور وہ شخص اپنے کھوئے ہوئے سامان کا متلاشی بنا ڈگر نگر بھٹک رہا ہو نیند میں بھی بے خوابی سی کیفیت، بظاہر سویا ہوا لیکن بیدار۔۔۔۔۔۔۔ اس حالت سے بیزار ہوا تو اس کی وجہ اپنے تئیں جاننے کی کوشش کی۔۔۔ آخر یہ بےسکونی کیوں ہے؟ میں اپنے اردگرد لوگوں کا بغور مشاہدہ کرنے لگا، تجسّس بھری نظروں سے ان کے چہروں کو گھور گھور کر دیکھتا کہ آیا ان کے اندر بھی میری مانند افرا تفری ہے یا نہیں؟ تو دیکھتا ہوں کہ ہر انسان کو جلدی ہے، چہروں پر سے ہوائیاں اڑی ہوئی ہیں، اور یہ کہتے اِدھر اُدھر بھاگتے پھر رہے ہیں میرا یہ کام نہیں ہوا، وہ نہیں ہوا، مجھے بہت دیر ہو رہی ہے، مجھے یہ چاہیئے، وہ چاہیئے۔۔۔۔ یہ سب دیکھ کر لگا جیسے ہم انسان نہیں مشینیں ہوں، زندگی میں زرا بھی ٹھہراؤ نہیں، اگر کسی لمحے رکے تو جیسے ہار جائیں گے اور بہت پیچھے رہ جائیں گے۔۔۔۔
یہ صورتِ حال دیکھ کر میں سوچنے لگا کہ آخر وہ کیا شے ہے جس نے ہم انسانوں کے اندر کھلبلی مچا رکھی ہے۔ تو ناقص عقل کو یہی سمجھ آئی کہ فطری چیزیں ہمیشہ اپنی فطرت پہ قائم رہتی ہیں، وہ کسی طور بدلتی نہیں اور نہ بدلی جاسکتی ہیں۔۔۔۔۔ اور انسان کے جسم میں مقید روح فطرت پہ قائم ہے۔ روح کی فطرت محبت ہے۔۔۔۔ بلکہ روح بذاتِ خود سراپاء محبت ہے۔۔۔ یہی روح ہی تو محبت کا وہ مظہر ہے جو کہ حق کے انوار و تجلیات سے مشرف ہوئی۔۔۔۔۔۔۔ اور اسی محبت پہ مولانا رومؒ فرماتے ہیں کہ "سچائی کے بےشمار راستے ہیں، اور جو راستہ میں نے چُنا وہ محبت ہے"۔۔۔۔۔۔۔۔ اس قول سے صاف ظاہر ہے کہ حق تک پہنچنے کا راستہ محبت ہے۔۔۔ اب کسی بھی منزل تک وہی پہنچ سکتا ہے نا کہ جسے راستہ معلوم ہو، تو محبت ہی روح کی رہبر ہے۔۔۔۔۔
اور روح کی تخلیق میں بنیادی طور پہ آزاد ی کا عنصر ہے۔۔۔۔۔۔ بعد میں وہ جسم میں مقیّد ہوئی۔ تو اپنی فطرت کے پیشِ نظر روح جسم کی قید سے آزادی چاہتی ہے۔ چونکہ محبت ہی روح کی رہبر ہے۔۔۔۔ مگر ہم انسانوں کے اندر تو محبت کی بجائے حسد اور نفرتیں پنپتی رہتی ہیں۔۔۔ اس لیئے روح کو کوئی راستہ نہیں ملتا۔۔۔۔ وہ بند پنجرے میں قید پرندے کی مانند پھڑپھڑاتی رہتی ہے۔۔ اسی وجہ سے ہم لوگوں میں افراتفری کی سی کیفیت پائی جاتی ہے۔۔۔ وجود کو ہر سکھ مہیا کرنے کے بعد بھی تشفی اور سکون حاصل نہیں ہوتا۔۔۔ کیونکہ " محبت وجود سے وجود کا نہیں، روح سے روح کے ربط کا نام ہے"۔ روح سے روح کا ربط آخر تب ہو نا جب کہ روح آزاد ہو؟ تو جو لوگ اخلاقیات، حُسنِ سلوک اور اپنا تن،من، دھن سب خوشی خوشی نچھاور کردینے کا ظرف اور بنا کسی توقعات کے ایثار جیسے اعلیٰ اسلوب رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ ایسے ہی لوگوں کے دلوں میں محبت پنپتی ہے۔۔۔۔۔۔ ان کی روحیں ان کے اجسام سے آزاد ہو جاتی ہیں۔۔ وہ ہمہ وقت جسم میں بھی موجود رہتی ہیں اور وصلِ محبوب سے بھی لطف اندوز ہو رہی ہوتی ہیں۔۔۔۔ ایسے لوگ نفسِ مطمعنہ کے حامل ہوتے ہیں۔۔۔ اور انہی کی روحوں کو محبت کا سرور نصیب ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment