Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Tuesday, June 9, 2015

بارشیں، بجلی اور غذائی اجناس


پچھلے چار پانچ دنوں سے ملک میں بارشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ میں خوش تھا کہ چلو اب لوڈشیڈنگ سے جان چھوٹے گی۔ والدہ کہنے لگیں یہ بارشیں جو اب ہورہی ہیں جنوری کے آخر یا فروری میں ہونی چاہئیں تھیں۔ ان بارشوں کی وجہ سے ڈیم تو شاید بھر جائیں گے لیکن فصلوں کا ستیاناس ہوجائے گا۔ محکمہ موسمیات کے کے مطابق سندھ میں جاری ان طوفانی بارشوں سے گندم کی فصل بری طرح متاثر ہوگی۔


پچھلے ایک سال سے پاکستان شدید غذائی بحران میں مبتلا ہے اور یہ بحران آئندہ بڑھتا ہی نظر آرہا ہے۔ عالمی سطح پر بھی اسی قسم کی پیش گوئیاں کی جارہی ہیں کہ دنیا بڑے غذائی بحران کا شکار ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں تو پہلے ہی صورت حال بہت خراب ہے۔ آٹے کا بحران پھر سے سر اٹھا رہا ہے۔ کراچی میں فلور ملوں کا کوٹہ کم کردیا گیا ہے۔ میرے ایک عزیز بتا رہے تھے کہ آٹے کا تھیلا لینے کے لیے سارا دن ذلیل ہوا ہوں پوری کالونی میں کسی بھی دوکان پر آٹا نہیں تھا۔ Karachi میں متوسط طبقے کے لوگ یوٹیلٹی سٹور سے آٹا لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمارے گھر کے قریب واقع سٹور پر پچھلے کئی ہفتوں سے آٹا نہیں آیا۔
کل رات سے Karachi میں لوڈ شیڈنگ ختم کردی گئی ہے۔ سات سے آٹھ تک بند رہنے والی بجلی صرف چند منٹ بند رہ کر دوبارہ آگئی۔ آج بھی 9 سے 10 تک کے لیے بجلی بند نہیں ہوئی۔ شاید ڈیموں میں پانی وافر مقدار میں آچکا ہے۔ لیکن اس کی قیمت شاید ہمیں گندم اور دوسری فصلوں کے بحران کی صورت میں ادا کرنی پڑے۔ اس سال کپاس کی فصل بھی ہدف سے کم حاصل ہوگی۔ گندم کی فصل کو تو دوہرا صدمہ اٹھانا پڑا ہے۔ جنوری میں پڑنے والی سردی کی شدید لہر نے گندم کے پودے ہی جلا ڈالے۔ کہتے ہیں سردی کا بہترین علاج ہے کہ فصل کو پانی دے دیا جائے۔ اس سے درجہ حرارت معتدل ہوجاتا ہے۔ لیکن اس وقت پانی کہاں تھا۔ ڈیم تو بیوہ کی مانگ کی طرح خالی تھے۔ اب بارشیں ہورہی ہیں تو گندم کی فصل پھل دینے کے لیے تیار ہے۔ اسے اس وقت گرمی کی ضرورت ہے لیکن ان بارشوں سے اتنی ٹھنڈ ہوگئی ہے کہ مجبورًا دوہرا کھیس لے کر سونا پڑ رہا ہے پھچلے دو تین دن سے۔ ورنہ کمرے میں سونا ہی محال ہوتا جارہا تھا اس سے پہلے ۔
ملک کی آدھی آبادی اور چورانوے اضلاع خوراک کے بحران کا شکار ہیں۔ پھچلے ایک سال میں آٹے کی قیمت 28 فیصد اور چاول کی قیمت 48 فیصد بڑھ چکی ہے۔ مجھے یاد ہے آج سے صرف دس سال پہلے تک میرے نانا اور ماموں کے گاؤں اور آس پاس کے علاقے میں چاول کثرت سے کاشت کیا جاتا تھا۔ میں سانگلہ ہل کے علاقے کی بات کررہا ہوں جو فیصل آباد سے لاہور جاتے ہوئے شیخوپورہ سے کچھ ادھر واقع ہے جنکشن ہے اور اچھا خاصا شہر بن چکا ہے۔ لیکن اب پانی کی کمی کی وجہ سے چونا (چاول کی فصل چُونا نہیں چونا پیش کے بغیر) کاشت کرنا موقوف کردیا گیا ہے۔ بہت کم جگہ سے چاول کی سوندھی خوشبو اٹھتی محسوس ہوتی ہے۔
آنے والا وقت نہ جانے ہم پر کیسی آزمائشیں لارہا ہے۔ لیکن اس کا دیباچہ ہی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ پاکستان، چین، افغانستان، بھارت، نیپال اور بھوٹان جیسے ممالک ہمالیہ کے گلئیشیرز سے نکلنے والے دریاؤں سے پانی حاصل کرتے ہیں۔ عالمی موسمی تبدیلیوں نے ان کے پگھلنے کی رفتار کو بہت تیز کردیا ہے۔ ایک طرف جہاں بنگلہ دیش جیسے علاقے سطح سمندر بلند ہونے سے ڈوب جائیں گے وہاں پاکستان جیسے علاقے پانی نہ ہونے کی وجہ سے شدید غذائی بحران کا شکار ہوجائیں گے۔ دنیا کے قریبًا تین ارب افراد ان ممالک میں رہتے ہیں۔ ہمالیہ کی جھیلیں جو گلیشئیرز کے پگھلنے سے وجود میں آتی ہیں اپنی گنجائش سے زیادہ بھر رہی ہیں اور آئندہ پانچ سے دس برس میں یہ اپنے کناروں سے چھلک کر کروڑوں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کردیں گی۔ اربوں ڈالر کی املاک تباہ ہوجائیں گی اور شدید سیلابوں سے ایک وسیع علاقہ زیر آب آکر تباہ ہوجائے گا۔ جس حساب سے یہ گلیشئیر پگھل رہے ہیں لگتا ہے ہمالیہ کا دامن ان سے خالی ہوجائے گا۔ پھر بارشیں ہوا کریں گی اور سیلاب کی صورت میں سمندروں کی نذر ہوجایا کریں گی۔
پاکستان کو اپنے پانی کے ذخائر کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ہمارے پلے ککھ نہیں رہے گا اور پاکستان سے زندہ بھاگ جیسے نعرے سچ ثابت ہوجائیں گے۔ اس وقت ڈیموں کی تعمیر جنگی بنیادوں پر کرنے کی ضرورت ہے۔ سندھ کے زیریں علاقوں کے رہنے والوں کو اعتراض ہے کہ پانی روکنے سے ڈیلٹا کا علاقہ تباہ ہورہا ہے۔ اوپر والے یہ شور مچاتے ہیں کہ اتنا پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک وسیع مذاکرے کا اہتمام ہونا چاہیے۔ ڈیم ضرور بننے چاہیئں چاہے ان سے نہریں نہ نکلیں بلکہ پانی واپس دریا میں ہی ڈال دیا جائے تو کچھ برا نہیں۔ پاکستان میں ابھی سے نظر آرہا ہے کہ پانی ایک مخصوص وقت میں وافر مقدار میں ہوتا ہے اس کے بعد کوئی چار ماہ ہمیں ہاتھ ملنا پڑتے ہیں۔ مجھے یاد نہیں پچھلے دس سال میں کبھی ڈیم اس طرح خالی ہونے کے بارے میں سنا ہو۔ تربیلا اور منگلا کی گنجائش تیزی سے کم ہورہی ہے۔ گار اور مٹی نے ان کی جھیلوں کی گنجائش بہت کم کردی ہے۔ کبھی کبھی میں سوچا کرتا ہوں اگر ان کی بھل صفائی ہی کردی جائے تو بہت سی گنجائش نکالی جاسکتی ہے۔ لیکن یہ خالی ہی تو نہیں ہوجاتے۔ ڈیڈ لیول تلے پانی ہوتا تو ہے جو کہ اچھا خاصا ہوتا ہے۔ تاہم ان کی صفائی کرنا ناممکن نہیں ہونا چاہیے۔ اگر اس کا کوئی طریقہ نکل آئے تو ہم شاید آئندہ بحرانوں کو کچھ وقت کے لیے ٹال سکیں۔
وقت بہت تیزی سے ہمارے خلاف ہوتا جارہا ہے۔ اگر ہم نے اس کے ساتھ چلنے کی کوشش نہ کی تو ہمیں اس کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ کاش یہ بات ہماری سمجھ میں آجائے۔ کاش ہم کچھ کرلیں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے 



No comments:

Post a Comment

')