میرے احباب میں سے اکثر فیس بُک پر پلاٹ یا پلازوں کے
مالک ہیں۔ اور میری سڑیل طبعیت کے کرم ہیں کہ پورے محلے میں مجھے لوگ اتنی بار مہینے میں نہیں دیکھتے ہوں گے جتنی بار فیس بک پر روزانہ دیکھتے ہیں۔ چنانچہ اس صورتِ حال کا سادہ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ میں اکثر فیس بُک پر پایا جاتا ہوں، اور دن کے کسی بھی وقت (بشمول رات) کسی بھی وقت بڑی بے شرمی سے پایا جا سکتا ہوں۔ اس پائے جا سکنے کی وجہ سے میں نہ صرف بذاتِ خود وہاں ادھر اُدھر کی ہانکتا رہتا ہوں، بلکہ اپنے جیسے دوسرے (ویلے کہنا زیادتی ہو گی) فیس بُکیوں کے ارشاداتِ گرامی بھی پڑھتا سنتا رہتا ہوں۔
کہتے ہیں جی کہ سانپ کو سانپ مارتا ہے، آرائیں کو آرائیں ہی ٹکرتا ہے اور فیس بُکیے کا دکھ درد ایک فیس بُکیا ہی سمجھ سکتا ہے۔ فیس بُک پر آپ غم غلط کرنے کے لیے بے شمار کام کر سکتے ہیں۔ گیم کھیلنا تو اب پرانا شوق ہو چکا ہے، تصویر بنا کر شئیر کرنا بھی کچھ نیا نہیں رہا، اپنے "میں ڈھڈی والے جا رہا ہوں" قسم کے اسٹیٹس اپڈیٹ بھی اب پرانے ہو چکے ہیں۔ لیکن فیس بک پر نئی چیزوں کی کبھی کمی نہیں ہوتی۔ چنانچہ آج کل حبیبانِ فیس بُک کے ہاتھ آ ئے چھنکنے کا نام ہیش ٹیگ ہے۔ اب ہیش ٹیگ اکیلا ہوتا تو کوئی حیرت والی بات نہیں تھی یہی ہیش ٹیگ ٹوئٹر اور گوگل پلس پر عرصہ دراز سے کھجل ہو رہے ہیں۔ فیس بُک احباب نے (یہاں اردو لکھنے والے فیس بکیے مراد ہیں) ایک نئی جگاڑ لگائی ہے۔ اپنے اقوالِ زرّیں کی تشہیر کے لیے انہوں نے ذاتی ٹیگ تخلیق کیے ہیں۔ مثلاً بلو، ٹِلو، اچھو، نِمو، بھالو وغیرہ ۔ چنانچہ اپنے اقوالِ زریں اور زندگی کے تجربات کا نچوڑ پیش کرنے کے بعد نیچے یہ ٹیگ لگا دیا جاتا ہے۔ یقین نہیں آتا تو فیس بک پر جا کر ان ناموں سے ہیش ٹیگ سرچ کر کے دیکھ لیں آپ کو زندگی کو سنوارنے والے ایسے ایسے اقوال ملیں گے کہ کانوں سے دھواں نکلنے لگے گا، آنکھوں کے آگے اندھیرا آنے لگے گا، اب تک کی زندگی برباد شدہ لگے گی، آئندہ زندگی اس فیس بُک مرشد کے بغیر بے کار لگنے لگے گی، اور آپ حد سے زیادہ حساس واقع ہوئے ہیں تو غصہ لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ، فون وغیرہ وغیرہ قسم کے آلہ رسائی فیس بُک پر بھی نکل سکتا ہے۔
عزیزانِ گرامیِ کہکشاں خان بلاگ ! ایک وقت تھا کہ ہم کھُل کر حسد فرما لیا کرتے تھے۔ یہی کوئی بیس برس پہلے۔ جب ہم چھوٹے یعنی، نِکے ہوا کرتے تھے۔ لیکن جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے ہمیں اپنا حسد چھپانا پڑا کہ یہی دنیا کی ریت ہے۔ اب تقریباً پکی عمر تک پہنچتے پہنچتے اور پکتے پکتے یہ عادت اتنی پک چکی ہے کہ حسد کیے بغیر اگلا کھانا ہضم نہیں ہوتا (ہم حسد مارکہ پھکی بنانے پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔)۔ خیر حسد تو ہوتا ہے لیکن ہم اس کو ویسے نکال نہیں سکتے جیسے چھوٹے ہوتے نکال لیا کرتے تھے۔ اور چونکہ ہماری اکثر و بیشتر کائنات فیس بُک ہی ہے، تو اس پر لوگو ں نے جب نئے طریقے ایجاد کر لیے تو ہمارا بھی دل کیا کہ ہم بھی ایسا کریں۔ اور نہ کر سکنے کی وجہ سے ہم بھی شدید قسم کے حسد کا شکار ہو گئے۔ اس کو نکالنے کے لیے ہم نے سوچا کہ زہر کو زہر سے اور ہیش ٹیگ کو ہیش ٹیگ سے مارا جائے، # حاسد کا ہیش ٹیگ تشکیل دے کر عوام الناس، خواص الناس بلکہ یکے بعد دیگرے ہر ایک کاستیا ناس بلکہ سوا ستیا ناس مارا جائے، دل کی بھڑاس نکالی جائے، ریسٹ روم میں 'ریسٹ' فرماتے ہوئے اترنے والے، بدہضمی اور پیٹ کی خرابی کی صورت میں گیس کے ساتھ دماغ کو چڑھنے والے زریں خیالات کو اقوالِ زریں کی صورت میں عوام الناس کی مت مار نے کے لیے فیس بُک پر رکھا جائے۔
لیکن صاحبو کیا بتائیں آپ کو، کہ جیسے ہم اکثر و بیشتر شاعری کی قبض کا شکار رہتے ہیں، کچھ یہی صورتحال اقوالِ زریں کی صورت میں بھی رہی۔ ہم نے بہتیری کوشش کی، فیس بک پر کئی کئی گھنٹے قیام کیا کہ شاید کچھ غیرت ہی آ جائے، مشہور و معروف احباب کے ہیش ٹیگز پر مشتمل ارشاداتِ گرامی کو بار بار پڑھا کہ شاید کوئی لیڈ مل جائے، کوئی سرا ہاتھ آ جائے۔ لیکن صاحب یہ نہ تھی ہماری قسمت۔۔۔۔الخ، ہماری قسمت تھی ہی نہیں ہم زور لگا کر رہ گئے اور فیس بُکی احباب اقوالِ زریں کے ڈھیر لگاتے چلے گئے۔ چنانچہ ہمارے پاس آخری حل یہ بچا کہ ایک عدد بلاگ پوسٹ لکھ کر دل کے پھپھولے پھوڑے جائیں، جو ہم نے پھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہاں بھی سواد نہیں آیا۔ پھپھولے کچھ نہ کچھ رہ گئے۔
یہ تو منفی باتیں تھیں، مثبت بات یہ ہے کہ ہم کُلی طور پر اقوالِ زریں سازی کے عمل سے باہر نہیں رہے، کچھ نہ کچھ اس سلسلے میں تشکیل پاتا رہا، وہ الگ بات ہے کہ اسے عوام کے سامنے شئیر کرنے کی بجائے آگ لگا دینا اکثر بہتر معلوم ہوا۔ لیکن چونکہ اب معاملہ دل کی بھڑاس نکالنے کا ہے، اور اظہارِ حسد کا ہے، اور اس پوسٹ کا پیٹ بھرنے کا بھی ہے تو ہم نے ان اقوالِ زریں کو یہاں پیسٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آپ کو پسند آئیں یا نہ آئیں یہ یہیں پڑے ہیں۔ کر لو جو کرنا ہے۔
پہلا قولِ زریں در اصل ایک پیروڈی ہے جو ماہا ملک کے ناول 'جو چلے تو جاں سے گزر گئے' کا ٹیمپلیٹ لے کر ہم نے 'جو چلے تو گاں سے گزر گئے' بنایا۔ گاں یا اگاں پنجابی میں آگے یا فرنٹ کو کہتے ہیں، اب آپ اس کے اطلاقات پر سیر حاصل غور فرما سکتے ہیں، اور کوئی بعید نہیں کہ ایسے ایسے معانی دریافت کر لیں جو ہم نے خواب میں بھی نہ سوچے ہوں۔
ایسے ہی اگلے دن ہم لائبریری سے ایک ناول لینے گئے چھوٹی کی فرمائش پر تو اس کا نام تھا "زندگی گلزار ہے"۔ ہماری منجی ٹھوک طبیعت نے اس کے حصے بخرے کیے اور اپنی تھرڈ کلاس طبیعت سے مجبور ہو کران ٹکڑوں کو دوبارہ سے جوڑا تو نتیجہ یہ نکلا "زندگی شلوار ہے"۔ یہ ہم وزن تو ہو گیا لیکن ساتھ ہی خاصا بے ہودہ بھی ہو گیا (یہی وجہ ہے کہ ہم نے اسے فیس بک پر نہیں لگایا)۔ چنانچہ اس کی اضافی تشریح کی ضرورت محسوس ہوئی۔ تو ہم نے کچھ ایسے تشریح کی: "زندگی شلوار ہے۔ جس کا نالا زیادہ کسا جائے تو بھی سانس رک جاتا ہے اور ڈھیلا رہ جائے تو بھی سنبھالنی مشکل ہو جاتی ہے۔۔۔" اس سلسلے میں مزید بکنے کی گنجائش موجود تھی لیکن ہم نے امنِ عامہ اور پی ٹی اے
کی پابندیوں سے بچنے کے لیے اتنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔
No comments:
Post a Comment