'تخیل'
کچھ تخیل پہ کوئی قید نہیں
اک اچانک خیال یہ آیا
آسماں کے جو ستارے ہیں
وہ مرے ہوتے
میں انہیں بھر کے اپنے آنچل میں
اپنے تن پر لپیٹ کر رکھتی
پھر اندھیرا مجھے نہ تڑپاتا
یا کبھی, اس طرح کیا کرتی
کچھ ستارے لگا کے تنکوں پر
ان کو گلدان میں سجا لیتی
اور رکھ دیتی ایک کونے میں
گھر کے اندھیارے جگمگا اٹھتے
یا ہتھیلی پہ کچھ ستاروں کو
رکھ کے پانی کا گلاس لے آتی
پھر نگلتی انہیں دوا کی طرح
اس طرح من کی تیرگی چھٹتی
,
مجھ کو دیوانہ سمجھنے والو
کہہ دیا ناں!
کہ تخیل پہ کوئی قید نہیں
No comments:
Post a Comment