امیدوں کے شہر میں
ہم نے بھی اک گھر بنایا ہے
نمی آنکھوں میں اتری تھی
مگر ہم نے چھپایا ہے
ہمارے اردگرد لوگ کچھ ایسے بھی رہتے ہیں
جو لڑتے موت سے ہیں روز اور ہم کو بھی کہتے ہیں
لڑائی جس قدر مشکل سہی ہم ہنس کے سہتے ہیں
سنو یہ زندگی ہے
امتحاں ہے،امتحاں ایسا
جہاں نصاب سے انجان
ہو کر سب گزرتے ہیں
مگر جو حوصلوں کے خون سے لکھتے کہانی ہیں
وہی تاریخ لکھتے ہیں
مورخ نام پہ ان کے ہی تعریف لکھتے ہیں
خوابوں کے شہر میں لوگ وہ تعبیر کے مصرعے
اپنے حوصلوں سے عزم کی تاثیر لکھتے ہیں۔
ہاں وہ لوگ پارس ہیں
جو تکلیف کی تصویر پہ عنوان لکھنا ہو
تو امید لکھتے ہیں
ہاں وہ لوگ پارس ہیں
جو امید دیتے ہیں اور امید لکھتے ہیں
No comments:
Post a Comment