چلو چھوڑو !
محبت جھوٹ ہے
" عہدِ وفا“ ایک
شغل ہے بےکار لوگوں کا
" طلب“ سوکھے
ہوئے پتّوں کا بے رونق جزیرہ ہے
" خلش“ دیمک زدہ
اوراق پر
بوسیدہ سطروں کا ذخیرہ
ہے
چلو چھوڑو !
کہ اب تک میں اندھیروں
کی
دھمک میں سانس کی
ضربوں پہ
چاہت کے بِنا رک کر
سفر کرتی رہی ہوں
مجھے احساس ہی کب تھا
کہ تم بھی موسموں کے ساتھ
اپنے پیرہن کے رنگ بدلو گے
چلو چھوڑو !
میرا ہونا نہ ہونا اک برابر ہے
تم اپنے خدوخال کو آئینے میں پھر نکھرنے دو
تم اپنی آنکھ کی بستی میں پھر سے ایک نیا موسم اُترنے دو
میرے خوابوں کو مرنے دو
چلو چھوڑو !
محبت جھوٹ ہے۔
No comments:
Post a Comment