مجھے خبر ہے
میں منحرف ہوں
ہر ایسے فرمان کی جو سوچوں کو رہن رکھ دے
جو عقل تابوت میں سجا کر
روایتوں کی سیاہ مہریں
مرے تخیل پہ ثبت کر دے
ہر ایسے فرماں کی منحرف ہوں
جو میرے دل پرصحیفہ جبر بن کے اترے
جو ظلمت شب ہر ایک ملہم پہ فرض کر دے
جو آنکھ کی پتلیوں پہ جھکنے کو قرض کر دے
میں منحرف ہوں ہر ایسے فرماں کی
جو گماں پر سوال بن کر اترتے لمحوں
کو خوف کی گود میں سلا دے
جو سچ کی آواز مصلحت کی دبیز مٹی تلے چھپا دے
میں معترف ہوں
کہ میرے دل کی ہر ایک دھڑکن
بغاوتوں کے ہزار لمحوں کو پالتی ہے
میں منتظر ہوں کہ میرا انکار کفر ٹھہرے
میں حرف انکار ہوں تو لوح یقین سے مجھ کو
مٹا کے دیکھو
یہ میری سوچوں کی روشنی گر
بجھا سکو تو بجھا کے دیکھو
No comments:
Post a Comment