Kahkashan Khan Blog This page is dedicated to all the art, poetry, literature, music, nature, solitude and book lovers. Do what makes your soul happy. Love and Peace. - D
Saturday, February 20, 2016
Wednesday, February 10, 2016
Tuesday, February 9, 2016
محبت
محبت اور ضرورت
ضرورت سے محبت
یا پھر
محبت کی ضرورت
محبت اور ضرورت دو مختلف چیزیں ہیں۔ یہاں اللہ کی
ضرورت سب کو ہے۔ سب اذیت میں، اذیت سے بچنے کے لیۓ بےساختہ اللہ اللہ کر اٹھتے ہیں۔ مگر اللہ سے محبت کچھ اور ہی چیز ہے۔ کچھ بہت ماورا، شاید بیان سے باہر!
اس محبت میں تو، دنیا کی نظر میں انسان اذیت میں بھی ہو تو اسے وہ اذیت نہیں لگتی۔ بلکہ محبت والے اس میں بھی صبر و شکر و حمد کے بہانے تلاش لیتے ہیں۔ وہاں صبر کرنے کے لیۓ حکمت سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ وہاں محبت
میں تسلیم ورضا ہی جامِ محبت ہوتا ہے!
ایک اور صبح
بلآخر ایک اور صبح بیدار ہوئی۔ یا آنکھیں پھر سے وقت کے
فریب کی زَدّ میں آگئیں؟ کہ وہی گزشتہ صبح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نئی صبح اور نئے دن کے نام سے نمودار ہوئی چاہتی ہے؟ زمان و مکان اور وقت کا تخلیق کردہ رب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ جس نے وقت کو عجب فراوانی بخشی ہے کہ بے لگام گھوڑے کی مانند ہاتھ میں آئے بغیر سرپٹ دوڑتا چلا جا رہا ہے۔ یا کہ پھر ایسا سحر بخشا ہے کہ چُٹکی بجا کر سکّے کے دو پہلوؤں کی طرح دن اور رات کی صورت میں اُن کے رُخ بدلتا رہتا ہے۔
کتنا عجیب ہے یہ سب؟ ایک صبح کل ہوئی تھی، ایک آج ہوئی ہے، اور ایک نے کل امرِ ربی سے ہونا ہے۔ ہر صبح کے ساتھ جڑی انسانی کیفیات میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ سورج اور چاند اپنے اپنے مدار میں اپنا چکر مکمل کرتے رہتے ہیں۔ مگر اِس صبح میں کوئی تغیّر نظر نہیں آتا۔ ہے ناں سحر، جادو، آنکھوں کا فریب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوچ رہی ہوں کہ جب کائینات بنی تھی، معلوم نہیں کہ شروعات دن سے ہوئی تھی یا کہ رات سے، مگر اُس پہلے دِن کی صبح ضرور ہوئی ہوگی۔ اور اِسی طرح یہ بھی معلوم نہیں کہ کب اِس دنیا کا کاروبار اپنے انجام کو پہنچے گا، اور تب رات ہو گی یا دن؟ مگر یہ بھی طے ہے کہ اُس دن کی صبح بھی ضرور ہو گی۔
شاید ہمارے نزدیک دن اور رات کی پہچان صرف اندھیرے اور اُجالے تک ہی محدود ہے۔ مگر چاندنی راتیں تو اندھیری نہیں ہوتیں، اور نہ سورج گرہن کے وقت دن روشن ہوتا ہے۔ تو پھر دن اور رات کی پہچان کیا ہے؟ یہ روز نئی صبح کیوں نمودار ہو جاتی ہے؟ کیوں اُس رات کا قصّہ اُسی رات تک محدود رہ جاتا ہے؟ کوئی اگر اپنی کیفیت سے نکل کر نئی صبح چاہتا ہے تو کیوں اُس وقت رات ہو چکی ہوتی ہے؟ اور کوئی اگر صبح سے بیزار رات کا طلبگار ہے تو کیوں اُس کے متھے نئی صبح مار دی جاتی ہے؟ کیا اس کائینات میں رُونما تمام محرک عوامل نے صرف انسان پر ہی اثر انداز ہونا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر ہماری طبیعت کے مخالف کیوں؟ موافق کیوں نہیں؟
کہنے کو تو صبح ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اندھیرا اب بھی باقی ہے۔
دُعا
دُعا مانگتے وقت جن کے نام خود بخود دل میں آ جائیں، ان کا
ہماری دُعاؤں پہ زیادہ حق ہوتا ہے۔ شاید ایسا اس لیئے ہے کہ وہ بھی ہمیں کہیں نہ کہیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔
ہماری زندگی میں کُچھ لوگوں کا کردار، محض تپتی ہوئی زمین پہ برستی بارش کی اُن چند بوندوں کی طرح ہوتا ہے۔ کہ جن کے برسنے سے پہلے بھی گُھٹن، بعد میں بھی گُھٹن۔
موت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بولتے ہوؤں کے منہ پہ ہاتھ رکھ کے چُپ کروا دیتی ہے، لیکن پھر بھی کچھ لوگ بول پڑتے ہیں۔ اور میں نہیں چاہتی کہ میں بولوں، میں چاہتی ہوں کہ میں بھی چُپ کر
جاؤں۔
بوجھ
مُجھ سے ایک بار کسی نے پُوچھا تھا کہ کہکشاں آپ کے
نزدیک زندگی کا سب سے بڑا بوجھ کیا ہے؟"
میں نے کہا تھا کہ صورتحال پہ منحصر ہے۔ ہر انسان کے حالات مختلف ہوتے ہیں، تو کسی کے لیئے تنہائی بوجھ، کسی کو غربت بوجھ لگتی ہے، کسی کے لیئے مال و دولت، کسی کو ذمہ داریاں اور فرائض اور کسی کی نظر میں رشتے سب سے بڑے بوجھ ہوتے ہیں۔
انھوں نے کہا "نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہماری زندگی کا سب سے بڑا بوجھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ تنہائی، مال و دولت، غربت، فرائض و ذمہ داریاں اور نہ ہی رشتے۔"
"ہماری زندگی کا سب سے بڑا بوجھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "گناہ" کا بوجھ ہوتا ہے۔ اور پتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب جانتے ہوئے بھی زینہ در زینہ ہم اوپر چڑھتے جاتے ہیں۔ یار یہ گناہ کا بوجھ سب
سے بڑا بوجھ ہوتا ہے
موم بتیاں
سوچ رہی تھی کہ آخر خود کو کتنا فریب دینے کی کوشش کروں گی ؟ کچھ دیر کے لیئے دوسرے تو میرے فریب کی زد میں آ سکتے ہیں، مگر میں خود نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ میرے رُوبرو کوئی دوسرا نہیں، میں خود ہوں۔
میں نے اپنے اندر کی تاریکی کو ختم کرنے کی خاطر اپنے ارد گرد بے شُمار موم بتیوں کا سہارا لے رکھا ہے۔ ایک بُجھنے لگتی ہے تو دوسری جلا لیتی ہوں۔ مگر کبھی یہ جسارت تک نہیں کی کہ تھوڑا سا اور آگے بڑھ کراُس ایک بلب کو ہی روشن کر لوں جو سدا کے لیئے میرے وجود کو اُجالوں سے روشناس کر دے۔ مگر نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!
شاید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ڈرتی ہوں، اگر وہ بلب روشن ہو گیا تو مجھے
ساری موم بتیاں بُجھانی پڑیں گی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Subscribe to:
Posts (Atom)