Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Friday, December 1, 2017

STORY TIME



کہانی
----------
بے سیل
________
بے سیل ہونا کسے کہتے ہیں ؟ جاننا چاہتے ہیں؟؟ تو صارم کا حال پڑھیے۔

”امی میرا موبائل دیکھا ہے آپ نے؟“ صارم کمرے سے پریشان صورت لیے باہر نکلا۔

”دیکھا تو ہے مگر ہر بار تمھارے ہاتھ میں لٹکا یا جیب میں اٹکا ہوا یا پھر کان سے لپٹا ہوا ہی دیکھا ہے۔“ امی بے زاری سے بولیں۔

”افوہ۔ کہاں چلا گیا؟ صبح تک تو میرے پاس تھا۔ پھر میں نہانے گیا اور موبائل کو چارج پر لگادیا۔ اب موبائل غائب ہے اور چارجر کا تار اکیلا لٹک رہا ہے۔“ صارم نے رونی صورت بنائی۔

”ارے وہیں کہیں ہوگا۔ تم اچھی طرح دیکھو۔ اتنا بدحواس ہونے کی ضرورت نہیں کہ آنکھیں اور کان پھٹ جائیں۔ کان پھٹ گئے اور پھر فون مل بھی گیا تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔“ امی نے ٹماٹر کاٹتے ہوئے بے زاری سے کہا۔

”حد ہوگئی امی۔ اگر آپ ایک منٹ کے لیے باہر جائیں اور واپس آئیں تو یہ سارے ٹماٹر غائب ہوں تو کیا آپ پریشان نہیں ہوں گی؟“ صارم بُرا مان گیا۔

”ٹماٹر چارجر پر نہیں لگتے۔ یہ یہیں پڑے رہیں گے۔ انھیں میرے سوا کاٹے گا بھی کون؟“ امی آہ بھرکر بولیں۔

”ارے امی.... مجھے لگتا ہے عارض یا علینہ نے چارجر سے موبائل نکال کر چھپا دیا ہوگا مجھے تنگ کرنے کے لیے۔“ صارم کو چھوٹے بہن بھائی کا خیال آگیا۔ ”عارض ٹیوشن پڑھنے گیا ہے اور علینہ بے چاری ایک سو دو بخار لیے بستر پر لیٹی ہے۔ اس کو تو ابھی دوا دے کر آرہی ہوں۔ اپنی چیزیں خود سنبھال نہیں سکتے اور دوسروں پر الزام دھرتے پھرتے ہو۔ یہ کوئی اچھی بات ہے بھلا۔“ امی نے صارم کو جھڑک دیا۔

”معاف کردیں امی۔“ عارض نے سر کھجا کے کہا اور وہ پلٹنے لگا تھا کہ امی نے آواز دی۔ ”موبائل سے فرصت مل ہی گئی ہے تو علینہ کو پوچھ لو۔ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔ پیاس لگ رہی ہے اسے بار بار، اسے پانی پلادینا۔“ امی کی بات سن کر صارم مجبوراً چھوٹی بہن کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ علینہ کو پانی اور اس کا پسندیدہ رسالہ ”ساتھی“ دے کر کمرے سے باہر نکلا اور اپنے کمرے میں جا کر بستر کی چادر اور تکیہ اُلٹ پلٹ کرنے لگا۔ پردے ہٹا ہٹا کے دیکھا۔ بلی کی طرح بستر کے نیچے گھس گیا مگر موبائل نہ ملنا تھا سو وہ نہ ملا۔

”صارم کیا کمرے میں گھس کر موبائل کا سوگ منا رہے ہو؟باہر نکلو۔“ امی نے آواز دی۔ صارم گرتا پڑتا باہر آیا۔

”صارم بیٹا۔ ایک کلو قیمہ، دو کلو آلو اور آدھا کلو دہی لے آنا۔ یہ سب آجائے گا ناں پانچ سو روپے میں؟“ امی نے پانچ سو روپے کا نوٹ بٹوے سے نکال کر صارم کو پکڑایا۔

”ایک منٹ ٹھہریں۔ ابھی ایک منٹ میں بتاتا ہوں۔“ صارم نے عادت کے مطابق جیب میں ہاتھ ڈال کر موبائل کی مدد چاہی مگر پھر مایوسی سے کہا۔ ”نہیں امی، میں تو نہیں بتاسکتا۔“ صارم کا جوش ٹھنڈا پڑگیا۔

”کوئی بات نہیں۔ میری انگلیاں گم نہیں ہوئیں، میں بتاتی ہوں۔“ امی مسکرا کر انگلیوں پر گننے لگیں پھر بولیں۔ ”بیٹا سو روپے اور لگیں گے۔ یہ لو اور بلکہ سو روپے اور لے جاﺅ۔ تم اپنے لیے آئس کریم لے آنا۔“ امی نے بیٹے کا اُترا اُترا چہرہ دیکھا تو بے ساختہ انھیں پیار آگیا۔ پیسے جیب میں ڈال کر ڈھیلے ڈھیلے قدموں سے صارم دروازے کی جانب چلا تھا کہ امی نے پکارا۔

دنیا ویران تھی۔ زندگی سنسان تھی۔ اداسیوں نے ہر سو ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ وقت کاٹے نہیں کٹتا تھا۔ اچانک ایک ایسی آواز صارم کے کانوں میں آئی کہ سوکھے دھانوں میں پانی پڑگیا۔ گدھے کی آواز والی اس کے موبائل کی رنگ ٹون اس کے کانوں میں شہد بن کر اُتر رہی تھی۔

”میرا موبائل، میرا موبائل گھر میں ہی ہے۔ یہیں کہیں بج رہا ہے۔“ وہ دیوانوں کی طرح اُٹھا اور اندھوں کی طرح آواز کی سمت بھاگا۔ امی باورچی خانے میں برتن دھو رہی تھیں۔ ”امی گدھے کی آواز....“ صارم دیوانوں کی طرح بولا۔

”حد ہوگئی، رات کے وقت گدھے کی آواز کہاں سے آگئی؟ دوپہر کو دھوبی کپڑے سمیٹ کے گدھے پہ لاد کے چلا بھی گیا۔ تم کو اب گدھے کی آواز سنائی دے رہی ہے۔“ امی جھنجھلا کر بولیں۔ ”کہیں بستر کی میلی چادروں میں تو لپٹ کے موبائل نہیں چلا گیا؟“ صارم کو نئی فکر لاحق ہوئی کہ اتنے میں گدھے کی آواز دوبارہ آئی۔ وہ ابو کے کمرے میں بھاگا جہاںعارض اس کا موبائل تھامے کھڑا تھا اور ابو عارض سے کہہ رہے تھے۔ ”میرے خیال میں کافی سبق ہوگیا۔ واپس کردو اسے۔“ اتنے میں صارم کمرے میں آگیا۔

”یہ تو میں سمجھ گیا تھا کہ عارض کی شرارت ہے لیکن یہ نہیں جانتا تھا کہ اس میں امی ابو بھی شامل ہیں۔“ صارم نے خفا ہو کر کہا۔

”نہیں تمھاری امی کو کچھ نہیں معلوم۔ عارض نے ٹیوشن جانے سے پہلے تمھارا موبائل نکال لیا تھا۔ مجھے بعد میں بتایا۔ مجھے اس کی شرارت بے ضرر لگی۔ یہ لو موبائل۔“ ابو نے اسے موبائل تھمادیا اور کہنے لگے۔ ”مگر یہ ضرور سوچنا کہ آج کتنے عرصے بعد تم نے اپنی امی سے باتیں کی ہیں؟ کتنے زمانوں بعد علینہ کے ساتھ بیٹھ کے ساتھی رسالے کی کہانیاں ڈسکس کی ہیں؟ کتنے دنوں بعد بوڑھی خالہ کے گھر گئے ہو؟ حساب کتاب کے لیے کتنے زمانوں بعد اپنا ذرا سا دماغ استعمال کیا ہے؟ یرقان کی انگریزی دیکھنے کے لیے ڈکشنری کی گرد جھاڑی ہے؟ بولو؟“ ابو کی باتیں صارم کا سر جھکانے کو کافی تھیں اور وہ سوچ رہا تھا کہ یہ ”بے سیل دن“ اسے بہت کچھ سکھا گیا ہے۔

٭....٭

No comments:

Post a Comment

')