میں جھیل سیف الملوک کے کنارے اکیلی ساری رات بتانا چاہتی ہوں
مجھے رات کو اکیلے میں اندھیرے سے ڈر لگتا ہے
مگر میں چاہتی ہوں
بس
ایک رات کے لئے میرا ڈر ختم کر دیا جائے
میں چاند کی روشنی میں جھیل کے چمکتے پرسکون پانی سے تمہاری باتیں کرنا چاہتی ہوں
میں جھیل سیف الملوک کو بتانا چاہتی ہوں
کہ مجھے تمہاری آنکھیں جھیل سیف الملوک سے بھی زیادہ پیاری لگتی ہیں
مجھے تمہاری آنکھوں کی معصومیت و سادگی کس قدر بھاتی ہے
مجھے تمہاری مسکراہٹ کتنی جاں بخش لگتی ہے
اور مجھے تمہارا بات کرنا کتنا مسحور کرتا ہے
اور تمہاری آواز کیسے مجھے ٹرانس میں لے جاتی ہے
میں جھیل سیف الملوک کو بتانا چاہتی ہوں
کہ مجھے تم سے کتنی محبت ہے
مجھے کتنا ڈر لگتا ہے تمہیں کھونے سے
مجھے کتنے گلے شکوے ہیں تم سے
میں کتنا ناراض ہوں تم سے
میں جھیل سیف الملوک کو بتانا چاہتی ہوں
کہ ہماری پہلی بار کیسے بات ہوئی
اور اسکے بعد سے لے کر آج تک کیا کیا ہو
تمہاری اور اپنی ساری پرانی باتیں یاد کرنا چاہتی ہوں
میں جھیل سیف الملوک کے کنارے بیٹھ کر خاموشی سے چپ چاپ آنسو بہانا چاہتی ہوں
وہاں بیٹھ کر تمہیں یاد کرکے مسکرانا چاہتی ہوں
میں چاہتی ہوں
میں جھیل سیف الملوک کو بتاوں
کہ تم مجھے کتنے پیارے لگتے ہو
وہاں کے خاموش پانی سے تمہاری باتیں شئیر کرکے ہنسنا چاہتی ہوں
رونا چاہتی ہوں
وہاں میں تمہارے ساتھ نہیں جانا چاہتی
بس
تمہاری تصویر تمہارا تصور میرے ساتھ ہو وہاں
تم پاس ہو تو میری تنہائی مکمل ہو جاتی ہے
وہاں میں مکمل تنہائی میں تمہارے تصور سے ڈھیرں باتیں کرنا چاہتی ہوں
بس
ایک پوری پوری رات
مسلسل تمہیں یاد کرتے ہوئے بتانا چاہتی ہوں
اور پھر تمہیں یاد کرتے کرتے تمہارے تصور سے باتیں کرتے کرتے بھیگی پلکوں اور دھیمی مسکان ساتھ گہری اور پرسکون نیند سونا چاہتی ہوں
اور میں یہ بھی جانتی ہوں
بہت سی خواہشیں جو کبھی پوری نہیں ہو سکتیں
میری یہ خواہش بھی ان میں سے ہی ایک ہے
No comments:
Post a Comment