مجھ سے ایک بار کسی نے کہا تھا کہ انسانوں سے کوئی توقعات وابستہ نہ رکھنا خواہشات کرنا چھوڑ دینا یہ سب ناامیدی کی علامات ہیں اور یہ بات تب سے میرے لاشعور میں ایک سوال بن کر اٹک گئی تھی کہ کیا میں واقعی زندگی اور لوگوں سے ناامید ہو گئی ہوں اور مجھے چند دن پہلے اسکا جواب مل گیا ہے یہ ناامیدی نہیں ہوتی جب ہم بار بار اپنوں سے وابستہ توقعات ٹوٹ جانے کے بعد ان سے کسی بھی شے کی امید رکھنا چھوڑ دیتے ہیں اور نہ ہی یہ امیدی ہے کہ جب ہم ہمیشہ خواہشات کے ادھورے رہ جانے کا کرب سہنے سے بچنے کیلئے خواہشات کرنا چھوڑ دیتے ہیں
یہ تو حقیقت پسندی کے آئینے میں دیکھ کر خود کو تکالیف سے بچانے کا ایک طریقہ ہے تاکہ لوگ اور ان کے رویے ہمیں مزید تکلیف نہ دے سکیں ہمارا دل نہ دکھا سکیں اور ایک شخص کم از کم زندگی میں اتنی سی خود غرضی تو دکھا ہی سکتا ہے نا کہ وہ لوگوں سے خود کو اذیت دینے کا اختیار چھین لے :)🖤
No comments:
Post a Comment