Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Monday, June 4, 2018

میں ہر روز اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھتی ہوں


میں ہر روز اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھتی ہوں اور سوچتی ہوں کتنی عجیب بات ہے نا میرے ہاتھوں کی لکیروں میں اُس شخص کا نام ہی نہیں ہے؛
جس کی محبت میرے جسم میں موجود خون کا قطرہ قطرہ نچوڑ کر پی گئی ہے؛

میرے اللہ کو مجھ سے بہت سارے گلے ہیں مگر مجھے اپنے اللہ سے بس یہی ایک گلہ ہے؛

میں جب اپنے اللہ سے ملونگی نا تو اُنہیں اپنی ہتھیلیاں دکھاٶں گی کہ دیکھیں اِن لکیروں میں جب اُسکا نام نہیں سج سکتا تھا تو پھر اُسے میری زندگی میں بھی نہ آنے دیتے، گر آگیا تھا تو اُس سے محبت نہ ہونے دیتے، کردی تھی تو، مجھے بھول جانے کا حوصلہ دیتے، صبر نہیں مل سکتا تھا تو روح پر قابض نہ ہونے دیتے، وہ میری روح میں اِس طرح گُھسا ہے جیسے کسی جسم میں سر سے پاٶں تک، ڈھیر ساری سوئیاں چُبھی ہوں؛

رب چاہتا تھا وہ میرا نہ بنے اُس نے اُسے میری لکیروں میں رکھا ہی نہیں، وہ چاہتا تو میرے آنسو تھم بھی سکتے تھے، وہ چاہتا تو مجھے اِس قید سے رہائی دے سکتا تھا، جو سِرے سے لکھتا ہی نہیں، جو لکھے ہوئے کو مٹا بھی دیتا ہے، وہ محبت کے قیدیوں کو رہائی بھی تو دے سکتا ہے ، غلطی ہوگئی تھی نہ مجھ سے، حدود سے نکل گئی تھی میں ، پر معافیاں بھی تو مانگی ہیں میں نے،
لوگ کہتے ہیں رب معاف کردیتا ہے، پر مجھے لگتا ہے کبھی کبھی رب بھی معاف نہیں کرتا، یہی تو وجہ ہے کہ محبت کے قیدی مرتے دَم تک یوں ہی سِسکتے، سُلگتے رہتے ہیں؛
شاید کسی قیدی کو مرنے کے بعد معافی مل گئی ہو؛_
مجھے لگتا ہے وہ مجھے بھی معاف نہیں کرے گا، میں بھی آخری سانس تک تڑپتی رہونگی، یوں ہی دربدر رہونگی؛
میرا دل کرتا ہے میں آسمان کی طرف ہتھیلیاں اُٹھا کر
چیخ چیخ کر التجا کروں کہ اے اللہ پاک تُو جسے ہاتھوں کی لکیروں میں نہیں لکھتا، اُسے پھر دل کی سلیٹ پر بھی نا لکھا کر، ہم جیسے لوگ بےموت مارے جاتے ہیں، دنیا تو ہم پر رحم نہیں کرتی تُو تو ہم پر ترس کھایا کر، تو ہی تو گواہ ہے ہمارے اندر کی توڑ پھوڑ کا تُو تو یوں نا کیا کر اللہ تُو تو یوں نا کیا کر؛



مرے شاہا! مری تم سے شکایت پہلے جیسی ہے


مرے شاہا! مری تم سے شکایت پہلے جیسی ہے
کہ ہے درپیش جو مشکل، نہایت پہلے جیسی ہے

تمہی کو خاص رکھا ہے، تمہی مخصوص ٹھہرے ہو
جگہ اب بھی وہی پہلی ، عنایت پہلے جیسی ہے

مرے نسخے میں لکھ ڈالا فقط دیدار بس تیرا
شکایت پہلے جیسی ہے ، ہدایت پہلے جیسی ہے

تمہیں پوری اجازت ہے کبھی بھی لوٹ آنا تم
یہاں اب بھی سہولت ہے ،حمایت پہلے جیسی ہے

تمہیں تقسیم کرنے کا نہیں ہے حوصلہ مجھ میں
تمہیں محفوظ رکھا ہے، کفایت پہلے جیسی ہے

تمہیں جب دیکھ آئے تھے بھلے تھے ٹھیک تھے اس دن
مگر اب ہے وہی حالت، سرایت پہلے جیسی ہے

سنو! کیا خوف ہے تم کو اگرچہ لوٹنا چاہو
تمہارے واسطے اب بھی، رعایت پہلے جیسی ہے

ابھی بھی منتظر ہوں میں ، ابھی بھی تیری خواہش ہے
یہاں کچھ بھی نہیں بدلا، روایت پہلے جیسی ہے 


تم نے کھو دیا مجھ کو۔



تم نے کھو دیا مجھ کو۔۔۔ تم نے کھو دیا مجھ کو
وقت کی نوازش سے'زندگی کی مہلت سے
تیرے در پہ آئے تھے
اور اک صدا دی تھی
تجھ کو سبز بختی کی ہم فقیر لوگوں نے
پر اثر دعا دی تھی
وہی کم نصیبی تھی تم نے قدر نہ جانی
اور ان دعاوُں کو
میری سب وفاوُں کو
روند ڈالا قدموں سے
اتنا بھی نہ سوچا کہ
ہم منتظر تھے جنموں سے
اور ہم سے دیوانے ملتے ہیں نصیبوں سے
بڑھ کے تم ہمیں پاتے
اپنے سب حبیبوں سے
اور اب تو ایک مدت سے
ایک ٹک کھڑے اکثر
خود سے کہتے رہتے ہیں
ہم میں کیا کمی دیکھی
کیسی برہمی دیکھی
خواب خواب آنکھوں کی' کیوں نہ یہ نمی دیکھی
ہم نے اپنے چاروں اور تیری سرد مہری کی برف ہی جمی دیکھی
تم نے کیوں نہیں سوچا میری کیا طلب ہو گی
جو بھی ہو مگر جاناں 
بے ریا و بے سبب ہو گی
مجھ کو دیکھ تو لیتے
مجھ سے بات تو کرتے
اس سفر میں پل دو پل مجھ کو ساتھ تو کرتے
پر یہ تم نے نہ سوچا' ہے تم نے نہ سمجھا
پر آج تنہا میں گھر کی ان دیواروں سے
یہ سوال کرتی ہوں
تم نے کیا کمی دیکھی
یہ ملال کرتی ہوں
سن لو اے میرے ہمدم مجھ کو لوٹ جانا ہے
بے ثمر مسافت سے
دل کو بھی بچانا ہے ہجر کی تمازت سے
پر تیرے دل کے سب رستے آج سے بھلانے ہیں
خود سے جو کیئے وعدے سارے وہ نبھانے ہیں
تیرے نام کو پڑھ کر دل اب نہیں جھکنا
سن کے اب صدا تیری ہم نے نہیں رکنا
جب یہ عہد باندھا تو دیکھ کر میری حالت 
میرے گھر کا آئینہ آج رو دیا مجھ کو

تم سے اتنا کہنا ہے' تیری کم نصیبی ہے
"تم نے کھو دیا مجھ کو"

جو باتیں میں آپ سے کہہ نہیں سکی


جو باتیں میں آپ سے کہہ نہیں سکی
وہ لکھ رھی ھوں 
اپنے لیے ہمارے لیے
"جس کی ہمیں تلاش ھے وہ خود ہمیں تلاش کر رھا ھے
صرف اک یہی بات مجھے پرسکون کرتی ھے
کہ شاید آپ بھی میری تلاش میں ہیں
ساری باتیں لفظوں میں بیاں نہیں ھوتی
کچھ خاموش رھتی ھیں
جیسے ہماری باتیں۔۔۔
اگر آپ مجھ میں زندہ ہیں 
تو یہ بھی سچ ھے کہ کہیں نہ کہیں میں بھی آپ میں موجود ھوں۔۔
تو پھر آپ کو پتہ ھوگا 
میں کیا محسوس کرتی ھوں
وہ یادیں 
وہ باتیں 
وہ ہنسنا
وہ رونا
وہ ہجر 
وہ تنہائی
وہ خاموشی
سب کچھ ۔۔۔
آپ اور میں اب دو نہیں اک ھیں
یہ ساری باتیں اب میں خود سے کرلیتی ھوں
اور
اور آپ کو سوچ کر مسکرا دیتی ھوں
کیونکہ کہیں نہ کہیں 
میں جانتی ھوں
کہ
*آپ مجھے جانتے ہیں*



کبھی کبھی میں سوچتی ھوں کہ


کبھی کبھی میں سوچتی ھوں کہ تم میرے پرخلوص جذبات کا قرض کس طرح اتارو گے؟ میں نے جتنے الفاظ تم سے کہے اور تم نے نظر انداز کر دیے خاموش رہے کتنے مقروض ہو نا تم میرے اور تمہیں پتہ ہے کہ روپے پیسے کے مقروض کبھی نا کبھی قرض اتار لیتے ہیں لیکن کسی کے جذبات کے باتوں کے مقروض کبھی بھی قرض نہیں اتار سکتے یاد رکھنا تم ۔۔۔۔۔۔ تم قرض دار ہو میرے



جانے کیوں مگر


جانے کیوں مگر
میرے اندر کبھی کبھی یہ خواہش شدت سے پھڑپھڑانے لگتی ہے کہ
میں کبھی اُنہیں نماز پڑھتے دیکھوں، کبھی رکوع کرتے دیکھوں، کبھی سجدہ کرتے دیکھوں، کبھی دعا مانگتے دیکھوں

سادہ سے شلوار قمیص میں سر پر ٹوپی جمائے،خوشبوٶں میں بسا، جائے نمازپر بیٹھا کتنا مکمل، کتنا دلکش، کتنا مخلص، کتنا سچا لگتا ہوگا نا وہ
اُس لمحے
کبھی کبھی مجھے اُس کے آس پاس کے لوگوں پر رشک آنے لگتا ہے_
اور کبھی کبھی مجھے خود کی انوکھی خواہشوں پر ترس آنے لگتا ہے_
محبت بھی کتنی عجیب شے ہے نا ایک لمحے میں انسان کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے
جو نگاہیں حالتِ نماز میں دیکھتی ہیں اُسے
میں اُن خوش قسمت آنکھوں کے صدقے



میرے ذہن میں خیال آتے ہیں



میرے ذہن میں خیال آتے ہیں اگر میں کل صبح نا جاگوں تو کیا کبھی اسے وہم گزرے گا کے میں اسے کتنی محبت کرتی تھی آنے والا کل نا آیا تو کیا وہ جان پاۓگا کے میں اسے کتنی محبت کرتی تھی
کیا میں نے ہر کوشش کرلی تاکے اسے بتا سکوں کے اس دنیا میں صرف وہ ہی میرا ہے 
اور اگر میرا وقت ختم ہو جاۓ اور اسے میرے بغیر دنیا کا سامنا کرنا پڑے تو جو محبت میں نے اسے پہلے دی وہ ہمیشہ باقی رہنے کے لیے کافی ہوگی ؟
اگر آنے والا وقت نا آیا تو 
مگر اب ایسا نہیں
وہ محبت کے قابل نہیں تھا
جب کوئی انسان اپ کو اگنور کرے تو سمجھ لو اس کے دل میں اپ کے لیے کوئی محبت نہیں. .....کیو کے آج کل محبّت صرف ٹائم پاس ہیں اپنے جذبات کسی پر ظاہر نہ کرے :
ورنہ لوگ اس کو اپ کی کمزوری سمجھ کر توڑ دیتے ہیں
یہ ہی حقیقت ہیں



میں لڑکی هو کر قائم هوں اب تک


میں لڑکی هو کر قائم هوں اب تک
اُسے حیا نہ آئی ____ مُکرتے هوئے



ہجر کا احترام تو دیکھو



ہجر کا احترام تو دیکھو
میرے آنسو قطار میں اترے




سرخاب کے پر کچھ نہیں ہوتے



سرخاب کے پر کچھ نہیں ہوتے ... یہ تو دل کا دیا ہوا مقام ہوتا ہے, چاہے تو سرخاب کردے, چاہے تو عذاب.. بڑا خود غرض ہوتا ہے دل... بے رحمی پر اتر آۓ تو سر کے تاج کو پیروں کی خاک کر دے, مہربان ہو تو پتھر کو اٹھا کر سر کے تاج میں 
جوڑ دے



')