گھر سے باہر نکلتے ہی آوازیں مزید واضح ہوگئی تھیں۔
سیٹیوں کی عجیب و غریب بین کرتی ہوئی کریہہ آوازیں، جیسے بچہ رو رہا ہو۔
موٹر سائیکلوں کے سائلنسر سے نکلنے والا ناقابل برداشت اور نفرت انگیز شور، جو کان میں پڑتے ہی غصے کی لہر پیدا کررہا تھا۔
اور پٹاخے، چھوٹے بڑے اور درمیانے چلتے ہوئے پٹاخے، جو مجھ پرسو درے کی طرح چاروں طرف سے یکساں آواز میں نازل ہورہے تھے۔
سونے پر سہاگہ اس کا دوست، جس نے اسے دیکھ کر آواز دے لی۔
"ہاں بھئی شہزادے کیا تیاری کی ہے جشن آزادی کی"۔ حسب توقع چھوٹتے ہی اس نے سوال کیا۔
جواب میں وہ کچھ لمحے بے تاثر انداز میں اسے دیکھتا رہا پھر بولا "تُو بتا تیرے پاس کیا تیاری ہے"۔
اور جواب میں اس کے دوست نے جیب سے ایک سیٹی نکال کر بجائی۔ بین کرنے کی کریہہ آواز اطراف میں پھیلتی چلی گئی۔
"اس بار یہ سیٹیاں چل رہی ہیں جشن آزادی پر شہزادے اس لیے میں نے بھی لے لی ہے۔ ورنہ تو ہمارا اصل آئٹم تو موٹر سائیکل والا ہوتا ہے۔ اس بار بھی سائیلنسر نکلوا لیا ہے۔ پٹاخے موجود ہیں۔"
"بس؟"
"ہاں اس بار جھنڈے والی شرٹ بھی سلوا لی ہے۔ شام مزارقائد چلیں گے پہن کر۔ ذرا موج میلا ہوجائے گا۔" اس کے دوست نے معنی خیز انداز میں آنکھ ماری اور بھونڈے انداز میں ہنسنے لگا۔
"مجھ سے پوچھے جارہا ہے، اپنی بتا تُو تو کئی دن سے پروگرام بنا رہا تھا"۔
"کچھ نہیں یار بس ساری تیاری ختم ہوگئی"۔
"کیوں؟ خیر تو ہے؟"
"بس یار آج ابے نے پٹاخے دیکھ لیے۔ اس نے میرے پٹاخےجلا دئیے"۔
"اوہو افسوس ہوا سن کر۔ میرا ابا کچھ نہیں کہتا۔ جو مرضی کرو۔ وہ تو کہتا ہے یہی دن انجوائے کرنے کے ہوتے ہیں۔ بچوں کو تنگ نہیں کرنا چاہیے۔ "
"بس یار میرا ابا عجیب قسم کا اباہے۔ کبھی تو لگتا ہے میرا ابا ہے ہی نہیں۔ کہتا ہے اگر جشن آزادی منانی ہے تو پڑھو۔ پڑھ کر ملک کی خدمت کرو۔ اور اچھے اچھے کام کرو۔ اس کے خیال میں یہ سارے کام اچھے کام نہیں"۔ آخری جملے پر اس کا لہجہ کٹیلا ہوگیا۔
"چل شہزادے تو فکر نہ کر۔ پٹاخے بھی مل جائیں گے۔ اور موٹر سائیکل تو اپنی ہے ہی تو بھی ساتھ آجا۔ مزار قائد چلتے ہیں۔ آنکھیں ٹھنڈی کرنے کئی سجن بیلی ہونگے وہاں ۔" اس کے دوست نے اس کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ اور وہ بھی ابے کے چھتر بھول کر مسکرا دیا۔ پھر دونوں 14 اگست "منانے" کی تیاری کرنے لگے۔ ایک بار پھر بین کرنے جیسی سیٹی کی آواز ابھرنے لگی۔ جیسے وطن اپنی حالت پر بین کررہا ہو۔
No comments:
Post a Comment