کہانی اوڑھ لی میں نے ۔
زمانہ چاہتا ہے ہر گھڑی بس نِت نئی باتیں
نئے دن اور نئی شامیں،
نئی صبحیں نئی راتیں
نئی قسمیں، نئے وعدے،
نئے رشتے، نئے ناتے
پُرانے جو بھی قصے تھے
وہ اب اس کو نہیں بھاتے
میں خود لفظوں کی مصرعوں کی
بہم تکرار سے جاناں
بہت اُکتا گئی تھی اب
تو میں نے یوں کیا،
لفظوں کو مصرعوں کو
لپیٹا سُرخ کاغذ میں
پھر ان کو من میں رقصاں آگ دکھلا دی
ہوا میں راکھ کے اُڑتے ہوئے
ذرّوں نے جب پوچھا
کرے گی کیا؟
سُنے گی کیا،
کہے گی کیا؟
تیرا دامن تو خالی ہے
کہا میں نے
مجھے اب کچھ نہیں کرنا
مجھے اب کچھ نہیں سُننا،
مجھے اب کچھ نہیں کہنا
کہانی اوڑھ لی میں نے
No comments:
Post a Comment