اس نے مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا مجھے خدا سے محبت ہے؟ میں نے کہا تھا ‘ پتہ نہیں۔آج ‘ اتنی ٹھوکریں کھا کر بھی میں نہیں جان سکی کہ اللّٰه سے محبت کسے کہتے ہیں۔وہ کیسے کی جاتی ہے۔ میں لوگوں کو دھوکے نہ دینے کی کوشش بھی کرتی ہوں‘ مگر ابھی تک میں اللّٰه تعالیٰ سے وہ محبت نہیں کر سکی جو کرنا چاہیے تھی ۔ میں سمجھتی تھی کہ آخر میں جا کر میں اس محبت کو سمجھ جاؤں گی مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ اور میں یہی بتانا چاہتی ہوں آپ کو۔ اللّٰه کی طرف جاتا راستہ بہت طویل ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ ہم اس کے آخر تک پہنچ جائیں‘ اس کو پار کر لیں۔ ضروری صرف یہ ہے کہ جب ہمیں موت آئے تو ہم اسی راستے پہ ہوں چاہے لڑکھڑا رہے ہوں‘ چاہے گڑ پڑ کر آگے بڑھ رہے ہوں‘ مگر اس سیدھے راستے پہ ر ہیں۔ اپنے گناہوں کو دلیلیں دے دے کر جسٹی فائی نہ کرتے پھریں۔جب دل میں کچھ کھٹک رہا ہو تو بہ کر کے اپنے اعمال درست کر لیں اور راستہ سیدھا کرلیں۔ ہمارا مستقبل کورا ہے ‘ ماضی جیسا بھی داغدار ہو بھلے۔مستقبل کو ہم اپنی مرضی سے لکھ سکتے ہیں۔‘‘
’’اور اللّٰه سے محبت ؟‘‘
’’وہ ویسی نہیں کر سکی جیسے کرنی چاہیے۔ مگر مجھے ان چیزوں سے محبت ہو گئی ہے جن سے اللّٰه کو محبت ہے۔ مجھے قرآن سے محبت ہو گئی ہے ‘ اور مجھے اللّٰه تعالیٰ سے بات کرنا ‘ دعا مانگنا اچھا لگنے لگا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر اللّٰه سے محبت میں ولیوں اور نیک لوگوں جیسی نہ بھی ہو سکی ‘ تب بھی میں ایسے اچھے کام کرتی رہوں گی جن سے
کم از کم وہ تو مجھ سے محبت کرے گا ناں
No comments:
Post a Comment