!زندگی بارش ہے
بارش کا جنم سمندروں کی ان وسعتوں میں ہوتا ہے جہاں پانی سی کم حیثیت چیز شائید کوئی نہ ہو۔ ہوائیں اسے اِک ادائے بے نیازی سے شہروں، صحراوں، کھیتوں اور دریاوں کے بیچ اڑاتی ہیں اور پھراِک دن اسے برسنے کا اذن ملتا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ قرعہ کس نام نکلے گا۔ صحرا کی قسمت جاگے گی یا پھر فصل پکے کھیتوں کے کنارے کھڑے کسانوں کی سال بھر کی کمائی غارت کرنے کا کام ملے گا۔ بارش کا کام پیاس بجھانا نہیں ہے، فصل اگانا نہیں ہے، سیلاب لانا نہیں ہے، شہر کو ماورائی چادر میں ڈھانپ دینا نہیں ہے۔ بارش کا کام تو بس برسنا ہے۔ جہاں اذن ملے وہاں کھل کر برسنا ہے۔ اور پھر چھت کی منڈیروں، لجاتی دوشیزہ کی چادر کے کونوں، کوئل کے پروں، غلاظت بھری نالیوں، موٹر سائیکل سواروں کی برساتیوں سے ہوتے ہوئے اس طلسماتی شہر کے رازوں کو اپنی زنبیلوں میں ڈالے خود کو دریا کے سپرد کر دینا ہے۔
زندگی بارش ہے۔ اور بارش کے قطرے کی طرح بے اختیار ہم آسمانِ دنیا پراِک اذن کے منتظر رہتے ہیں ۔ جیسے ہی اجازت عطا ہوتی ہے ایک لمبی چھلانگ کے ساتھ ہم اس سحر انگیز دنیا میں اپنے حصے کی سانپ لہریں بناتے دریا کی طرف سفر شروع کر دیتے ہیں۔ راستے میں کتنے چھتوں کی منڈیریں، کتنی دوشیزائوں کے لبادے، کتنی کوئلوں کے پر، کتنی غلاظت بھری نالیاں، کتنے موٹر سائکل سواروں کی برساتیاں ملتی ہیں یہ مقدر کا کھیل ہے۔ ہم سے پوچھا جائے گا تو بس اتنا کہ ہم نے اپنا کردار کیسا نبھایا۔ جب ہمیں مقابل میں پیاسے ہونٹ ملے تو خود کو مٹا کر ہم نے وہ پیاس بجھائی یا نہیں، جب ہمارے سامنے اس بوڑھی عورت کے ہفتوں کی سُکھائی گندم لائی گئی تو ہم نے رحمدلی کے نام پرکہیں اسے خشک تو نہیں چھوڑ ڈالا۔ اوراس پورے سفر ہماری متاع ہے تو بس اس طلسماتی شہر کی کہانیاں جنہیں اپنی زنبیلوں میں اہتمام سے چھپائے ہمیں سمندر تک لے جانا ہے اور پھر سرگوشیوں کے بیچ انہیں کچھ اس طرح پھیلا دینا ہے کہ سمندراپنی ساری بے نیازی کے باوجود شہر سے محبت کرنے لگے۔
No comments:
Post a Comment