چرچ کی سیڑھیاں، وائلن پر کوئی دُھن بجاتا ہوا
دیکھتا ہے مجھے، اِک ستارہ کہیں ٹمٹماتا ہوا
ڈوب جاتا ہوں، پھِر اُڑنے لگتا ہوں، پِھرڈوب جاتا ہوں میں
اِک پری کو کسی جل پری کی کہانی سناتا ہوا
میں خدا سے تو کہہ سکتا ہوں’’دیکھ،سُن‘‘ پر خلا سے نہیں
اپنے اندر ہی پھر لوٹ جاتا ہوں میں، باہر آتا ہوا
ہے کہاں تک تماشا، کہاں تک خلل، کوئی کیسے کہے
ایک رعشہ زدہ ہاتھ کٹھ پُتلیوں کو نچاتا ہوا
دائرہ اِس مثلث کے باہر بھی ہے اور اندر بھی ہے
ایک نقطہ ہے دِل، لطف ہر مسئلے کا اٹھاتا ہوا
پائوں رکھتا ہوں اِک منجمِد جھیل میں،چاند کے عکس پر
ایک تنہائی سے،ایک گہرائی سے خوف کھاتا ہوا
باغ اپنی طرف کھینچتا تھا مجھے،خواب اپنی طرف
بنچ پر سو رہا ہوں میں دونوں کا جھگڑا چُکاتا ہوا
ایک بستی ہے یہ، لوگ بھی ہیں یہاں اور تالاب بھی
ابر جیسے اِسے جانتا ہی نہ ہو، آتا جاتا ہوا
بسترِمرگ پرنبض ہی وقت ہے،نبض ہی یاد ہے
کوئی منظر کہیں سے اُبھرتا ہوا، ڈوب جاتا ہوا
رات پکڑا گیا، اور باندھا گیا، اور مارا گیا
ایک لڑکا سا دل، میرؔ کے باغ سے پھل چُراتا ہوا
No comments:
Post a Comment