کسی خوش نگاہ سی آ نکھ نے یہ کمال مجھ پہ کر م کیا
میر ی لوحِ جاں پہ رقم کیا
وہ جو ایک چا ند سا حرف تھا ، وہ جو ایک شا م سا نا م تھا
وہ جو ایک پھو ل سی بات پھر تی تھی در بدر
اُسے گلستاں کا پتہ دیا
میر ا دل کہ شہرِ ملا ل تھا اُس روشنی میں بسا دیا
میری آ نکھ اور میرے خواب کو کسی ایک پل میں بہم کیا
میرے آئینو ں پہ جو گرد تھی ماہ وسال کی وہ
اُتر گئی
وہ جو دھند تھی میرے چار سو وہ بکھر گئی
سبھی روپ عکسِ جمال کے
سبھی خواب شام و صال کے
جو غبا رِ و قت میں سر بسر تھے اٹے ہو ئے
وہ چمک اُ ٹھے
وہ جوپھول راہ کی دھول تھے
وہ مہک اٹھے
لیے سات ر نگ بہار کے
چلا میں جو سنگ بہا رکے
کسی دست شعبدہ ساز نے
میرے نام پر میرے وا سطے
میری بے گھری کو پناہ دی
میری جستجو کو نشاں د یا
جو یقین سے بھی حسین ہے مجھے
ایک ایسا گماں دیا
وہ جو ر یزہ ریزہ وجود تھا
اُسے اک نظر میں بہم کیا
کسی خوش نگہ سی آنکھ نے
یہ کمال مجھ پہ کرم کیا
امجد اسلام امجد
No comments:
Post a Comment