کبھی کبھی تیس سیکنڈ طے کرنے میں قیامت تک کا انتظار کرنا پڑ جاتا ہے. جنہوں نے آج سامنے رن وے دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا ہوگا کہ بس منزل آگئی لیکن انہیں کیا خبر کہ اب منزل اور انکے بیچ 30 سیکنڈ نہیں بلکہ قیامت کا دن حائل ہے.
جنہیں آج ایک منٹ پہلے یہ خوشی تھی کہ بہت وقتوں بعد وہ عید کی خوشی منانے گھر پہنچیں گے انہیں کیا خبر تھی کہ وہ اب کبھی گھر نہیں پہنچیں گے.
جنہوں نے آتے ہوئے اہلخانہ کو بڑی چاہ سے کہا ہوگا کہ امی، آپی، بیگم میں آ رہا ہوں میری من پسند افطاری بننی چاہیے آج، مگر وہ من پسند افطاری کھانے والے آج گھر افطاری پہ موجود نہیں تھے وہ ابھی کبھی کسی بھی رمضان میں کسی بھی افطاری پہ موجود نہیں ہونگے..
وہ جنہوں نے ماں سے کہا ہوگا امی آپکے بچے گھر آ رہے ہیں وہ بچوں کو اپنی آغوش میں لیتی مامتا بار بار گھر میں داخل ہوتے بچوں کو سینے سے لگانے کو خوشی سے بےچین ہوگی مگر ماں کی وہ نرم سی سکون بھری آغوش تشنہ ہی رہ گئی.
وہ باپ جو آج سب کو بتا رہا ہوگا کہ میرے بچے آ رہے ہیں جلدی کرو افطاری کی تیاری کرو بچے آجائیں گے، وہ باپ بچوں کو سینے سے لگانے کو بےچین مگر اس کے بچے اس کے سینے سے نہیں بلکہ اس باپ کے کاندھے پہ اٹھنے پہنچے ہیں.
خدارا چھوڑئیے نفرت کسے خبر ہے کل کس کی صبح ہو کس کی شام ہو نہ ہو. آج ہم جن لوگوں سے دوریاں بنائے بیٹھے ہیں اللہ جانے ہم کل ان سے مل پائیں گے کہ نہیں، زندگی کا بھروسہ نہیں کیا کرنا ایسی زندگی میں نفرتیں پالنے کا کہ جس کا 1 سیکنڈ کا بھی بھروسہ نہیں.
آج جو پیارے ساتھ ہیں انکی قدر کیجیے انکے ساتھ رہیے ورنہ یوں نہ ہو کہ جو آج ساتھ ہیں وہ صرف دعاؤں میں ہی رہ جائیں. ہم سوچ کے بیٹھے ہوتے ہیں کل پرسوں پھر کبھی مگر نہ کبھی کل آتا ہے نہ پرسوں آتا ہے نہ کبھی پھر کبھی آتا ہے. بس رہ جاتے ہیں تو لوگ دعاؤں میں رہ جاتے ہیں.
👍
ReplyDelete