میں کوئی ناولوں میں بسنے والی خوابوں میں جینے والی سادہ سی عام لڑکی نہیں ہوں
کبھی نصرت کے گیت میں بسا درد ہوں
تو کبھی عاطف کے گانوں کا میٹھا سا سر
کہیں منٹوں کے افسانوں کی طرح تلخ، کڑوی
تو کہیں میثم کی غزلوں کی چاش
جیسی میٹھی
کہیں جون کے خیالوں جیسی ہوں
تو کہیں اقبال کا خواب
کہیں غالب کے الفاظ کی سی مشکل ہوں
تو کہیں میر جیسی گہری
کبھی افکار کی غزلوں جیسی پل میں سب کا من کو چھو لینے والی
اور کبھی علی زریون کی باتوں کی طرح جو کسی فہم کی عقل میں سما ہی نہیں سکتی
کہیں ریاضی کے سوالات کی طرح الجھی ہوئی
تو کہیں کسی لغت کی طرح آسانی فراہم کرتی ہوئی
وقت کے ہر پہر ساتھ جیتی ایک پہیلی جیسی
No comments:
Post a Comment