دیدہ شوق میں سب اجڑتےہوئےدیکھا,
ہمنےاپنی آنکھوں سے یاروں کو بچھڑتے ہوئے دیکھا.
تھی جن سے میرے ہجرے میں رونق ہر سو,
ہم نے ان چراخوں کو خود پہ بجھتے ہوئے دیکھا.
کیا پتہ اب کون کہاں رہتا ہے,
ہم نے چند یاروں کو بدلتے ہوئے دیکھا.
سب کے سب ماہر تھے اپنے لطیفہ فنون میں,
ہم نے خود کو احساس و وفاداری کے فن میں ناکام ہوتے ہوئے دیکھا.
بہت رونق ہوا کرتی تھی دل میں ہر دم ہر سو چراخاں کا سماں,
ہم نے اپنے ہی سامنے دل ناداں کو لٹتے ہوئے دیکھا.
ہم نے کھولے تھے ہر اک پہ اپنی محبت کے در,
ہم نے اپنے ہی شہر کے لوگوں کو بس ہم سے خفا دیکھا.
وہ تو یار تھے پت جھڑ کی طرح بدلتے رہے ,
ہم نے تو اپنوں کو بھی دسمبر
کی طرح بدلتے ہوئے دیکھا.
اب کیا گلہ ان آتے جاتے نئے سالوں کی رونقوں سے,
ہم نے اب کے برس اپنی روح کو اپنے جسم سے جھگڑتے ہوئے دیکھا.
No comments:
Post a Comment