جب ہوا محبوب کی زلفوں سے کھیلتی ہے اور اس کی خوشبو چُرا کر دور بہت دور رہنے والوں کو اس کے حُسن کے راز سے آگاہ کرتی ہے۔
تب چاند یہ سب کچھ دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اور تمنا کرتا ہے۔
کاش یہ منظر اس کی آنکھ سے کبھی اوجھل نہ ہو۔
وہ تمنا کرتا ہے اسے بھی کسی سے محبت ہو۔
لیکن
چاند اپنی تنہائی کسی سے بانٹ نہیں سکتا۔
اے میری زندگی!
کیا یہ راتیں یونہی تنہائیوں میں گہری گزرتی رہیں گی؟
کیا جانے والا کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا؟
ہاں! یہی سچ ہے۔
سو اس رنج وغم کا لبادہ اتار پھینکو۔
پریشانیوں سے پریشان نہ ہو کہ پریشانیان سوچ کو پختگی دیتی ہیں۔
جو ہمشہ کے لیے چلا جائے اس کی جدائی پر صبر کرو۔
یہ نا سمجھو کہ درد بُرا ہے کہ درد ہی تو ہے جو دوا کو دعوت دیتا ہے۔
درد اور صبر ڈھلان کی طرح ہوتے ہیں۔
اور دوا پانی کی طرح۔ اسی لیے جہان درد ہو، وہاں دوا دوڑی چلی آتی ہے۔
جہاں ڈھلان ہو، پانی اسی طرف بہتا ہے۔
سو انتظار کر صبر کے ساتھ انتظار کر۔
اس غم اور پریشانی کو غنیمت جان۔ اس درد کو رحمتِ الہی جان۔
! اے میرے محبوب
اپنے دل کا ٹوٹنا ایک نعمت جان۔
کہ اسے جوڑنے کا سامان جلد مہیا ہونے والا ہے۔
No comments:
Post a Comment