خواب ٹوٹ جاتے ہیں
بھیڑ میں زمانے کی
ہاتھ چھوٹ جاتے ہیں
دوست دار لہجے میں
سلوٹیں سی پڑتی ہیں
اک ذرا سی رنجش سے
شک کی زرد ٹہنی پر
پھول بدگمانی کے
اس طرح سے کھلتے ہیں
زندگی سے پیارے بھی
اجنبی سے لگتے ہیں،غیر بن کے ملتے ہیں
عمر بھر کی چاہت کو آسرا نہیں ملتا
.
خاموشی کے وقفوں میں بات ٹوٹ جاتی ہے اور سرا نہیں ملتا
معذرت کے لفظوں کو روشنی نہیں ملتی
لذت پذیرائی پھر کبھی نہیں ملتی
پھول رنگ وعدوں کی منزلیں سکڑتی ہیں
راہ مڑنے لگتی ہے
بے رخی کے گارے سے بے دلی کی مٹی سے
فاصلے کی اینٹوں سے اینٹ جڑنے لگتی ہے
.
خاک اڑنے لگتی ہے
خواب ٹوٹ جاتے ہیں
واہموں کے سائے سے عمر بھر کی محنت کو
پل میں لوٹ جاتے ہیں
.
اک ذرا سی رنجش سے
ساتھ ٹوٹ جاتے ہیں
بھیڑ میں زمانے کی
ہاتھ چھوٹ جاتے ہیں
No comments:
Post a Comment