Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Thursday, November 24, 2016

احمد فراز





یدائش سید احمد شاہ علی12 جنوری 1931 ءکوہاٹ, خیبر پختونخوا, پاکستان
وفات اگست 25، 2008 (عمر 77 سال)اسلام آباد, پاکستان
قلمی نام فرازؔ
پیشہ اردو شاعر, لیکچرر
قومیت پاکستانی
نسل پشتون سید
شہریت پاکستانی
تعلیم ایم اے اردو, ایم اے فارسی
مادر علمی پشاور ماڈل اسکول
جامعہ پشاور
دور 1950 - 2008
صنف اردو غزل
مضمون عشق , تحریک مزاحمت
ادبی تحریک پروگریسو رائٹرز موومنٹ/ڈیموکریٹک موومنٹ
اہم اعزازات ہلال امتیاز
ستارہ امتیاز
نگار ایوارڈ
اولاد 3 بیٹے: سعدی, شبلی اور سرمد فراز
رشتہ دار سید محمد شاہ برق (والد)
سید مسعود کوثر (بھائی)


حالات زندگی


احمد فراز ( یوم پیدائش 12 جنوری، 1931ء - یوم وفات 25 اگست، 2008ء) میں کوہاٹ پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید احمد شاہ علی تھا۔ اردو اور فارسی میں ایم اے کیا ۔ ایڈورڈ کالج ( پشاور ) میں تعلیم کے دوران ریڈیو پاکستان کے لیے فیچر لکھنے شروع کیے ۔ جب ان کا پہلا شعری مجموعہ "" تنہا تنہا "" شائع ہوا تو وہ بی اے میں تھے ۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد ریڈیو سے علاحدہ ہو گئے اور یونیورسٹی میں لیکچر شپ اختیار کر لی ۔ اسی ملازمت کے دوران ان کا دوسرا مجموعہ "" درد آشوب ""چھپا جس کو پاکستان رائٹرزگلڈ کی جانب سے " آدم جی ادبی ایوارڈ "" عطا کیا گیا ۔ یونیورسٹی کی ملازمت کے بعد پاکستان نیشنل سینٹر (پشاور) کے ڈائریکٹر مقرر ہوۓ ۔ انہیں 1976 ء میں اکادمی ادبیات پاکستان کا پہلا سربراہ بنایا گیا ۔ بعد ازاں جنرل ضیاء کے دور میں انہیں مجبوراً جلا وطنی اختیار کرنی پڑی ۔


آپ 2006 ء تک "" نیشنل بک فاؤنڈیشن ""کے سربراہ رہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹی وی انٹرویو کی پاداش میں انہیں "" نیشنل بک فاؤنڈیش "" کی ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ۔ احمد فراز نے 1988 ء میں"" آدم جی ادبی ایوارڈ "" اور 1990ء میں"" اباسین ایوارڈ "" حاصل کیا ۔ 1988 ء میں انہیں بھارت میں "" فراق گورکھ پوری ایوارڈ "" سے نوازا گیا ۔ اکیڈمی آف اردو لٹریچر ( کینڈا ) نے بھی انہیں 1991ء میں ایوارڈ دیا ، جب کہ بھارت میں انہیں 1992 ء میں ""ٹاٹا ایوارڈ "" ملا۔


انہوں نے متعدد ممالک کے دورے کیے ۔ ان کا کلام علی گڑھ یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے ۔ جامعہ ملیہ (بھارت ) میں ان پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا گیا جس کا موضوع "" احمد فراز کی غزل "" ہے ۔ بہاولپور میں بھی "" احمد فراز ۔فن اور شخصیت "" کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا گیا ۔ ان کی شاعری کے انگریزی ،فرانسیسی ،ہندی،یوگوسلاوی،روسی،جرمن اور پنجابی میں تراجم ہو چکے ہیں ۔


احمد فراز جنہوں نے ایک زمانے میں فوج میں ملازمت کی کوشش کی تھی، اپنی شاعری کے زمانۂ عروج میں فوج میں آمرانہ روش اور اس کے سیاسی کردار کے خلاف شعر کہنے کے سبب کافی شہرت پائی۔ انہوں نے ضیاالحق کے مارشل لا کے دور کے خلاف نظمیں لکھیں جنہیں بہت شہرت ملی۔ مشاعروں میں کلام پڑھنے پر انہیں ملٹری حکومت نے حراست میں لیے جس کے بعد احمد فراز کوخود ساختہ جلاوطنی بھی برداشت کرنی پڑی۔


سنہ دوہزار چار میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دورِ صدارت میں انہیں ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا لیکن دو برس بعد انھوں نے یہ تمغا سرکاری پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے واپس کر دیا۔ احمد فراز نے کئی نظمیں لکھیں جنہیں عالمی سطح پر سراہا گیا۔ ان کی غزلیات کو بھی بہت شہرت ملی۔


مجموعہ کلام


تنہا تنہا


دردِ آشوب


شب خون


نایافت


میرے خواب ریزہ ریزہ


بے آواز گلی کوچوں میں


نابینا شہر میں آئینہ


پسِ اندازِ موسم


سب آوازیں میری ہیں


خوابِ گُل پریشاں ہے


بودلک


غزل بہانہ کروں


جاناں جاناں


اے عشق جنوں پیشہ


نمونہ کلام


اب کے ہم بچھڑے تو شايد کبھی خوابوں ميں مليں

اب کے ہم بچھڑے تو شايد کبھی خوابوں ميں مليں


جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں ميں مليں


ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں ميں وفا کے موتی


يہ خزینے تجھے ممکن ہے خرابوں ميں مليں



غم دنيا بھي غمِ يار ميں شامل کر لو


نشہ بڑھتا ہے شرابيں جو شرابوں ميں مليں


تو خدا ہے نہ ميرا عشق فرشتوں جيسا


دونوں انساں ہيں تو کيوں اتنے حجابوں ميں مليں



آج ہم دار پہ کھينچے گئے جن باتوں پر


کيا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں ميں مليں


اب نہ وہ ميں ہوں، نہ وہ تو ہے نہ وہ ماضی ہے فرازؔ


جيسے دو سائے تمنا کے سرابوں ميں ملیں


یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں


یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں


تمام تیری حکایتیں ہیں


یہ تذکرے تیرے لطف کے ہیں


یہ شعر تیری شکایتیں ہیں


میں سب تری نذر کر رہا ہوں ،


یہ ان زمانوں کی ساعتیں ہیں


جو زندگی کے نئے سفر میں


تجھے کسی روز یاد آئیں


تو ایک اک حرف جی اٹھے گا


پہن کے انفاس کی قبائیں


اداس تنہائیوں کے لمحوں


میں ناچ اٹھیں گی یہ اپسرائیں


مجھے ترے درد کے علاوہ بھی


اور دکھ تھے ، یہ جانتا ہوں


ہزار غم تھے جو زندگی کی


تلاش میں تھے ، یہ جانتا ہوں


مجھے خبر ہے کہ تیرے آنچل میں


درد کی ریت چھانتا ہوں


مگر ہر اک بار تجھ کو چھو کر


یہ ریت رنگِ حنا بنی ہے


یہ زخم گلزار بن گئے ہیں


یہ آہِ سوزاں گھٹا بنی ہے


یہ درد موجِ صبا ہوا ہے ،


یہ آگ دل کی صدا بنی ہے


اور اب یہ ساری متاعِ ہستی، یہ پھول،


یہ زخم سب ترے ہیں


یہ دکھ کے نوحے ، یہ سکھ کے نغمے ،


جو کل مرے تھے وہ اب ترے ہیں


جو تیری قربت، تری جدائی میں


کٹ گئے روز و شب ترے ہیں


وہ تیرا شاعر، ترا مغنی،


وہ جس کی باتیں عجیب سی تھیں


وہ جس کے انداز خسروانہ تھے


اور ادائیں غریب سی تھیں


وہ جس کے جینے کی خواہشیں بھی


خود اس کے اپنے نصیب سی تھیں


نہ پوچھ اس کا کہ وہ دیوانہ


بہت دنوں کا اجڑ چکا ہے


وہ کوہکن تو نہیں تھا لیکن


کڑی چٹانوں سے لڑ چکا ہے


وہ تھک چکا ہے اور اس کا تیشہ


اسی کے سینے میں گڑ چکا ہے


شکوہَ ظلمت شب سے کہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے



No comments:

Post a Comment

')