بہت دور تک
یہ جو ویران سی رہ گزر ہے
جہاں دھول اڑتی ہے
صدیوں کی بے اعتنائی میں
کھوئے ہوئے
قافلوں کی صدائیں بھٹکتی ہوئی
پھر رہی ہیں، درختوں میں
آنسو میں
صحراؤں کی خامشی ہے
ادھڑتے ہوئے خواب ہیں
اور اڑتے ہوئے خشک پتے
کہیں ٹھوکریں ہیں
صدائیں ہیں
افسوں ہے سمتوں کا
حد نظر تک
یہ تاریک سا جو کرہ ہے
افق تا افق جو گھنیری ردا ہے
جہاں آنکھ میں تیرتے ہیں زمانے
کہ ہم ڈوبتے ہیں
تو اس میں
تعلق ہی، وہ روشنی ہے
جو انساں کو جینے کا رستہ دکھاتی ہے
کندھوں پہ
ہاتھوں کا لمس گریزاں ہیں
ہونے کا مفہوم ہے غالباً
وگرنہ وہی رات ہے چار سو
جس میں ہم تم بھٹکتے ہیں
اور لڑکھڑاتے ہیں، گرتے ہیں
اور آسماں، ہاتھ اپنے بڑھا کر
کہیں ٹانک دیتا ہے ہم کو
کہیں پھر چمکتے، کہیں ٹوٹتے ہیں
No comments:
Post a Comment