Welcome to my blog!

Meet the Author

Blessed with the best _ Alhumdulillah!a million times for every blessing in my life.

Looking for something?

Subscribe to this blog!

Receive the latest posts by email. Just enter your email below if you want to subscribe!

Thursday, November 24, 2016

مير تقی میر





میر تقی میر اصل نام میر محمد تقى اردو كے عظیم شاعر تھے۔ میر ان کا تخلص تھا۔ اردو شاعرى ميں مير تقى مير كا مقام بہت اونچا ہے ـ انہیں ناقدین و شعرائے متاخرین نے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا۔ وہ اپنے زمانے كے ايك منفرد شاعر تھےـ


آپ كے متعلق اردو كے عظیم الشان شاعرمرزا غالب نے لکھا ہے۔


؎


ریختہ كے تمہی استاد نہیں ہو غالبؔ 


کہتے ہیں اگلے زمانے ميں كوئى مير بھی تھا 






حالات زندگی






میر تقی میر، آگرہ میں 1723ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام محمد علی تھا لیکن علی متقی کے نام سے مشہور تھے۔ اور درویش گوشہ نشین تھے۔ میر نے ابتدائی تعلیم والد کے دوست سید امان للہ سے حاصل کی مگر مزید تعلیم سے پہلے جب میر ابھی نو برس کے تھے وہ چل بسے تب ان کے بعد ان کے والد نے خود تعلیم و تربیت شروع کی۔ مگر چند ماہ بعد ہی ان کا بھی انتقال ہو گیا۔ یہاں سے میر کی زندگی میں رنج و الم کے طویل باب کی ابتداء ہوئی۔


ان کے سوتیلے بھائی محمد حسن نے اچھا سلوک نہ کیا۔ تلاش معاش کی فکر میں دہلی پہنچے اور ایک نواب کے ہاں ملازم ہو گئے۔ مگر جب نواب موصوف ایک جنگ میں مارے گئے تو میر آگرہ لوٹ آئے۔ لیکن گزر اوقات کی کوئی صورت نہ بن سکی۔ چنانچہ دوبارہ دہلی روانہ ہوئے اور اپنے خالو سراج الدین آرزو کے ہاں قیام پزیر ہوئے۔ سوتیلے بھائی کے اکسانے پر خان آرزو نے بھی پریشان کرنا شروع کر دیا۔ کچھ غم دوراں، کچھ غم جاناں سے جنوں کی کیفیت پیدا ہو گئی۔


میر کا زمانہ شورشوں اور فتنہ و فساد کا زمانہ تھا۔ ہر طرف تنگدستی و مشکلات برداشت کرنے کے بعد بالآخر میر گوشہ عافیت کی تلاش میں لکھنؤ روانہ ہو گئے۔ اور سفر کی صعوبتوں کے بعد لکھنؤ پہنچے ۔ وہاں ان کی شاعری کی دھوم مچ گئی۔ نواب آصف الدولہ نے تین سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا۔ اور میر آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔ لیکن تند مزاجی کی وجہ سے کسی بات پر ناراض ہو کر دربار سے الگ ہو گئے۔ آخری تین سالوں میں جوان بیٹی او ر بیوی کے انتقال نے صدمات میں اور اضافہ کر دیا۔ آخر اقلیم سخن کا یہ حرماں نصیب شہنشاہ 87 سال کی عمر پا کر 1810ء میں لکھنؤ کی آغوش میں ہمیشہ کے لیے سو گیا۔


میر کی زندگی کے بارے میں معلومات کا اہم ذریعہ ان کی سوانح عمری "ذکرِ میر"، جو ان کے بچپن سے لکھنؤ میں ان کے قیام کے آغاز کی مدت پر محیط ہے۔ میر نے اپنی زندگی کے چند ایام مغل دہلی میں صر ف کئے۔ اس وقت وہ پرانی دہلی میں جس جگہ رہتے تھے اسے کوچہ چلم، کہا جاتا تھا۔


مولانا محمد حسین آزاد ؔ اپنی کتاب ’’آبِ حیات‘‘ میں لکھتے ہیں۔


” میر تقی میر جب لکھنؤ چلے تو ساری گاڑی کا کرایہ بھی پاس نہ تھا۔ ناچار ایک شخص کے ساتھ شریک ہوگئے تو دلی کو خدا حافظ کہا۔ تھوڑی دور آگے چل کر اس شخص نے کچھ بات کی۔ یہ اس کی طرف سے منہ پھیر کر ہو بیٹھے۔ کچھ دیر کے بعد پھر اس نے بات کی میر صاحب چیں بجبیں ہوکر بولے کہ صاحب قبلہ آپ نے کرایہ دیا ہے۔ بے شک گاڑی میں بیٹھے۔ مگر باتوں سے کیا تعلق! اس نے کہا۔ حضرت کیا مضائقہ ہے۔ راہ کا شغل ہے باتوں میں ذرا جی بہلتا ہے۔ میر صاحب بگڑ کر بولے۔ کہ خیر آپ کا شغل ہے۔ میری زبان خراب ہوتی ہے۔ لکھنؤ میں پہنچ کر جیسا کہ مسافروں کا دستور ہے ایک سرائے میں اترے۔ معلوم ہوا کہ آج یہاں مشاعرہ ہے۔ رہ نہ سکے۔ اسی وقت غزل لکھی۔ اور مشاعرے میں جاکر شامل ہوئے۔ ان کی وضع قدیمانہ تھی۔ کھڑکی دار پگڑی، پچاس گز کے گھیر کا جامہ، اک پورا تھان پستولیے کا کمر سے بندھا، ایک رومال پٹڑی دار تہہ کیا ہوا اس میں آویزاں، مشروع پاجامہ، جس کے عرض کے پائیچے، ناگ پھنی کی انی دار جوتی جس کی ڈیڑھ بالشت اونچی نوک، کمر میں ایک طرف سیف یعنی سیدھی تلوار، دوسری طرف کٹار، ہاتھ میں جریب، غرض جب داخل محفل ہوئے تو وہ شہر لکھنو ، نئے انداز ، نئی تراشیں، بانکے ٹیڑھے جوان جمع، انہیں دیکھ کر سب ہنسنے لگے، میرؔ صاحب بیچارے غریب الوطن، زمانے کے ہاتھ سے پہلے ہی دل شکستہ اور بھی دل تنگ ہوئے اور ایک طرف بیٹھ گئے، شمع ان کے سامنے آئی، تو پھر سب کی نظر پڑی۔ بعض اشخاص نے سوچھا! حضور کا وطن کہاں ہے؟ میرؔ صاحب نے یہ قطعہ فی البدیہہ کہہ کر غزل طرحی میں داخل کیا:


؎ کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو


ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے


دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب


رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے


جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا


ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے


سب کو حال معلوم ہوا۔ بہت معذرت طلب کی، میر صاحب سے عفو تقصیر چاہی، کمال کے طالب تھے۔ صبح ہوتے ہوتے شہر میں مشہور ہو گیا کہ میرؔ صاحب تشریف لائے ہوئے ہیں، رفتہ رفتہ نواب آصف الدولہ مرحوم نے سنا اور دو سو روپیہ مہینہ کردیا۔ عظمت و اعزاز، جوہر کمال کے خادم ہیں، اگرچہ انہوں نے لکھنؤ میں بھی میر صاحب کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ مگر انہوں نے بد دماغی اور نازک مزاجی کو جو ان کے ذاتی مصاحب تھے، اپنے دم کے ساتھ ہی رکھا۔ چنانچہ کبھی کبھی نواب کی ملازمت میں جاتے تھے۔ ایک دن نواب مرحوم نے غزل کی فرمائش کی۔ دوسرے تیسرے دن جو پھر گئے تو پوچھا کہ میر صاحب! ہماری غزل لائے! میرے صاحب نے تیوری بدل کر کہا: جناب عالی! مضمون غلام کی جیب میں تو بھرے ہی نہیں کہ کل آپ نے فرمائش کی آج غزل حاضر کردے۔ اس فرشتہ خصال نے کہا۔ خیر میرؔ صاحب۔ جب طبیعت حاضر ہوگی کہہ دیجئے گا۔ ایک دن نواب نے بلا بھیجا۔ جب پہنچے تو دیکھا کہ نواب حوض کے کنارے کھڑے ہیں۔ ہاتھ میں چھڑی ہے۔ پانی میں لال، سبز مچھلیاں تیرتی پھرتی ہیں۔ آپ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ میرؔ صاحب کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور کہا میر صاحب کچھ فرمائیے۔ میرؔ صاحب نے غزل سنانی شروع کی۔ نواب صاحب سنتے جاتے تھے اور چھڑی کے ساتھ مچھلیوں سے بھی کھیلتے جاتے تھے۔ میر صاحب چیں بجبیں ہوتے اور ہر شعر پر ٹھہر جاتے تھے۔ نواب صاحب کہے جاتے تھے کہ ہاں پڑھیے۔ آخر چار شعر پڑھ کر میر صاحب ٹھہر گئے۔ اور بولے کہ پڑھوں کیا آپ مچھلیوں سے کھیلتے ہیں۔ متوجہ ہوں تو پڑھوں۔ نواب نے کہا جو شعر ہوگا۔ آپ متوجہ کرلے گا۔ میر صاحب کو یہ بات زیادہ تر ناگوار گزری۔ غزل جیب میں ڈال کر گھر کو چلے آئے اور پھر جانا چھوڑ دیا۔ چند روز کے بعد ایک دن بازار میں چلے جاتے تھے۔ نواب کی سواری سامنے سے آگئی۔ دیکھتے ہی نہایت محبت سے بولے کہ میرؔ صاحب آپ نے بالکل ہی ہمیں چھوڑ دیا۔ کبھی تشریف بھی نہیں لاتے۔ میرؔ صاحب نے کہا۔ بازار میں باتیں کرنا آداب شرفا نہیں۔ یہ کیا گفتگو کا موقع ہے۔ غرض بدستور اپنے گھر میں بیٹھے رہے اور فقر و فاقہ میں گزارتے رہے۔ آخر1325ھ میں فوت ہوئے اور سو برس کی عمر پائی۔














شعراء کی نظر میں






سودا تو اس زمین میں غزل در غزل لکھ


(ہونا ہے تم کو میر سے استا د کی طرح (سودا


غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ


(آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں (غالب


نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب


(ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا (ذوق\


شعر میرے بھی ہیں پردرد، و لیکن حسرت


(میر کا شیوہ گفتار کہاں سے لاؤں (حسرت\


اللہ کرے میر کا جنت میں مکاں ہو


(مرحوم نے ہر بات ہماری ہی بیاں کی (ابنِ انشا\


معتقد ہیں اگرچہ غالب کے


(میر کو بھی سلام کرتے ہیں (حزیں جی


بقول عبدالحق،


" اُن کا ہر شعر ایک آنسو ہے اور ہر مصرع خون کی ایک بوند ہے۔"


،ایک اور جگہ عبدالحق لکھتے ہیں


انہوں نے سوز کے ساتھ جو نغمہ چھیڑا ہے اس کی مثال دنیائے اردو میں نہیں "ملتی۔










شہنشاہ اقلیم سخن کی خود سرائی






ریختہ خوب ہی کہتا ہے جو انصاف کریں


چاہیے اہل ِ سخن میر کو استاد کریں


ریختہ رتبے کو پہنچایا ہوا اس کا ہے


معتقد کون نہیں میر کی استادی کا


گر دیکھو تم طرز ِ کلام اس کی نظر کر


اے اہل ِ سخن میر کو استاد کرو گے


پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ


مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں


باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں نہ ایسی سنیے گا


کہتے کسی کو سنیے گا تو دیر تلک سر دُھنیے گا


پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ


افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی


سہل ہے میر کا سمجھنا کیا


ہر سخن اس کا اک مقام سے ہے


مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں


تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں


جانے کا نہیں شور سخن کا میرے ہر گز


تا حشر جہاں میں میرا دیوان رہے گا


مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب ہم نے


درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا


ہر ورق ہر صفحہ میں ایک شعر شورانگیز ہے


عر صہٴ محشر ہے عرصہ میرے بھی دیوان کا


جہاں سے دیکھیئے ایک شعر شور انگیز نکلے ہے


قیامت کا سا ہنگامہ ہے ہر جا میرے دیواں میں


جی میں آتا ہے کچھ اور بھی موزوں کیجئے


درد دل ایک غزل میں تو سنایا نہ گیا


گفتگو ناقصوں سے ہے ورنہ


میر جی بھی کمال رکھتے ہیں


سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا


مستند ہے میرا فرمایا ہوا






حالات






ہر شاعر اپنے ماحول کی پیداوار ہوتا ہے۔ اس کے اردگرد رونما ہونے والے واقعات، حادثات، اس کی ذاتی زندگی میں پیش آنے والے تجربات اور اس سلسلے میں اس کے تاثرات ہی دراصل اس کی شاعری اور فن کے رخ کا تعین کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ماحول اور معاشرے کی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ لاشعوری طور پر شاعر اپنی فکر کا رخ موڑتا چلا جاتا ہے اور یوں اس کی شاعری وقت کی رفتار کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔




مير تقی میر ایک ایسے عہد میں پیدا ہوئے جو سیاسی، سماجی، ملکی اور معاشی اعتبار سے سخت انتشار اور افراتفری کا دور تھا۔ مغل مرکز کمزور پڑ چکا تھا۔ ہندوستان کے بہت سے صوبے خود مختار ہو چکے تھے پورا ملک لوٹ ما ر کا شکار تھا۔ بیرونی حملہ آور آئے دن حملے کرتے تھے اور عوام و خواص کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتے۔ لوگ بھوکے مرنے لگے اور دولت لٹنے سے اقتصادی بدحالی کا دور شروع ہوا۔




میر اپنے اس دور کے احساس زوال اور انسانی الم کے مظہر ہیں۔ ان کی شاعری اس تما م شکست و ریخت کے خلاف ایک غیر منظم احتجاج ہے۔ میر کے تصور غم کے بارے میں ڈاکٹر سید عبداللہ فرماتے ہیں کہ، ” میر کا سب سے بڑا مضمون شاعری ان کا غم ہے۔ غم و الم میر کے مضامین شاعری سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہ غم میر کا ذاتی غم بھی تھا اور یہی انسان کی ازلی اور ابدی تقدیر کا غم بھی تھا ۔ یہ سارے غم میر کی شاعری میں جمع ہوگئے ہیں۔ 








غم و حزن






میر کا تصور، زندگی کے بارے میں بڑا واضح ہے کہ ان کا زندگی کی بارے میں نقطۂ نظر حزنیہ تھا۔ حزن ایک ایسے غم کا نام ہے جو اپنے اندر تفکر اورتخلیقی صلاحیتیں بھی رکھتا ہے۔ یہ غم ذاتی مقاصد اور ذاتی اغراض کا پرتو نہیں رکھتا۔ اس غم میں تو سوچ ، غور و فکر اور تفکر کو دخل ہے۔ میر کے متعلق یہ کہنا بھی درست نہیں کی میر قنوطی شاعر ہیں یا محض یاسیت کا شکار ہیں۔ محض یاس کا شاعر ہونا کوئی بڑی بات نہیں، اصل بات تو یہ ہے کی انسان یاس و غم کا شکار ہونے کے باوجود زندگی سے نباہ کیسے کرتا ہے۔ یہی نباہ اس کا تصور زندگی کی تشکیل دیتا ہے۔ میر کا تصور ِ زندگی مایوس کن نہیں صرف اس میں غم و الم کا ذکر بہت زیادہ ہے۔ مگر یہ غم و الم ہمیں زندگی سے نفرت نہیں سکھاتا بلکہ زندہ رہنے کا حوصلہ عطا کر تا ہے۔ اس میں زندگی کی بھرپور توانائی کا احساس ہوتا ہے۔


مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے


درد و غم کتنے کئے جمع تو دیوا ن کیا


چشم رہتی ہے اب پر آب بہت


دل کو میر ے ہے اضطرا ب بہت


متصل روتے رہیے تو بجھے آتش دل


ایک دو اشک تو اور آگ لگا دیتے ہیں






میر کا تصور غمم


میر کا تصور غم تخیلی اور فکری ہے۔ یہ قنوطیت پیدا نہیں کرتا۔ اس کے ہوتے ہوئے میر کی شاعری میں توازن اور ٹھہراؤ نظر آتا ہے۔ شکستگی کا احساس نہیں ہوتا اور ضبط، سنجیدگی اور تحمل ملتا ہے۔ وہ غم سے سرشار ہو کر اسے سرور اور نشاط بنا دیتے ہیں۔ مجنوں گورکھپوری ان کے تصورات غم سے بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔


” میر نے غم عشق اور اس کے ساتھ غم زندگی کو ہمارے لیے راحت بنا دیا ہے۔ وہ درد کو ایک سرور اور الم کو ایک نشاط بنا دیتے ہیں۔ میر کے کلام کے مطالعہ سے ہمارے جذبات و خیالات اور ہمارے احساسات و نظریات میں وہ ضبط اور سنجیدگی پیدا ہوتی ہے۔ جس کو صحیح معنوں میں تحمل کہتے ہیں۔


ہر صبح غموں میں شام کی ہے میں


خونابہ کشی مدام کی ہے میں نے


یہ مہلت کم کہ جس کو کہتے ہیں عمر


مر مر کے غرض تمام کی ہے میں نے






میر کی دردمندی


میر کے ہاں دردمندی ان کے فلسفہ غم کا دوسرا نام ہے۔ اگرچہ لفظ فلسفہ انہوں نے استعمال ہی نہیں کیا، مگر اس سے مراد ان کی یہی ہے۔ دردمندی سے مراد زندگی کی تلخ حقیقتوں کا اعتراف و ادراک اور مقدور بھر ان تلخیوں کو دور کرنے کی کوشش کا نام ہے۔ یہ دردمندی ان کی زندگی کے تضادات سے جنم لیتی ہیں۔ دردمندی کا سرچشمہ دل ہے۔ میر کے یہ اشعار ذہن میں رکھیے:


آبلے کی طرح ٹھیس لگی پھوٹ بہے


دردمندی میں کٹی ساری جوانی اپنی


نہ دردمندی سے یہ راہ تم چلے ورنہ


قدم قدم پہ تھی یاں جائے نالہ و فریاد


چشم رہتی ہے اب پرُ آب بہت


دل کو میرے ہے اضطراب بہت


اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا


لوہو (لہو) آتا ہے جب نہیں آتا






دردمندی کے محرکات


میر کا دور شدید ابتری کا دور تھا۔ زندگی کے مختلف دائروں کی اقدار کی بے آبروئی ہو رہی تھی۔ انسانی خون کی ارزانی ، دنیا کی بے ثباتی اور ہمہ گیرانسانی تباہی نے انسانوں کو بے حد متاثر کیا۔ میر اس تباہی کے محض تماشائی نہ تھے بلکہ وہ خود اس تباہ حال معاشرہ کے ایک رکن تھے۔ جو صدیوں کے لگے بندھے نظام کی بردبادی سے تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر کر رہ گیا تھا۔ اوراب اس کو جوڑنا ممکن نہ رہا تھا۔ میر نے اس ماحول کے اثرات شدت سے محسوس کیے ہیں۔ ان کی غزلوں میں اس تباہی کے نقوش ملتے ہیں۔ لٹے ہوئے نگروں، شہروں اور اجڑی ہوئی بستیوں کے حالات، بجھے ہوئے دلوں کی تصویریں، زمانے کے گرد و غبار کی دھندلاہٹیں، تشبیہوں اور استعاروں کی شکل میں میر کے ہاں موجود ہیں۔


روشن ہے اس طرح دل ِ ویراں میں داغ ایک


اُجڑے نگر میں جیسے جلے ہے چراغ ایک


پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے


جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے


دل کی ویرانی کا کیا مذکور


یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا






بلند حوصلگی


بقول ڈاکٹر سید عبداللہ


میر کو زندگی سے بیزار شاعر نہیں کہا جاسکتا ۔ ان کا غم بعد میں آنے والے شاعر ، فانی کے غم سے مختلف ہے جس کی تان ہمیشہ موت پرٹوٹتی ہے۔ ان کا غم سودا سے بھی مختلف ہے۔ ان کا غم ایک مہذب اوردردمند آدمی کا غم ہے جو زندگی کے تضاد کو گہرے طور سے محسوس کرتا ہے کہ ایسی دلکش جگہ اور اتنی بے بنیاد اور محروم۔“


غم و الم کے اس عالم میں میر بے حوصلہ نہیں ہوتے۔ وہ سپاہیانہ دم خم رکھتے ہیں۔ فوجی ساز و سامان کے استعاروں میں مطلب ادا کرکے زندگی کا ایسا احساس دلاتے ہیں جس میں بزدلی بہرحال عیب ہے۔ وہ رویہ جسے اہل تذکرہ بے دماغی یا بد دماغی کہتے ہیں وہ دراصل وہ احتجاجی روش ہے جو ہر سپاہی کا شیوہ ہے۔


خوش رہا جب تلک رہا جیتا


میر معلوم ہے قلندر تھا


بہت آرزو تھی گلی کی تیری


سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے


حوصلہ شرط عشق ہے ورنہ


بات کا کس کو ڈھب نہیں آتا










دنیا کی بے ثباتی


بے ثباتی دنیا کا احساس اردو شاعری میں بہت عام ہے۔ اس موضوع پر تقریباً سبھی شعراء نے طبع آزمائی کی ہے۔ لیکن دبستان دہلی کے شعراء کے ہاں بے ثباتی کا احساس زیادہ گہرا نظرآتا ہے۔ خصوصاً میرتقی میر کی تمام شاعری میں دنیا کی بے ثباتی کا ذکر بڑے واضح الفاظ میں ملتا ہے۔ جس کی اصل وجہ اُس دور کے غیر یقینی اور ہنگامی حالات تھے۔ جس کی وجہ سے اُن کی شاعری میں دنیا سے بے زاری اور بے ثباتی کے موضوعات پروان چڑھے۔


کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات


کلی نے یہ سن کر تبسم کیا


نمود کرکے وہیں بحر غم میں بیٹھ گیا


کہے تو میر اک بلبلا تھا پانی کا


جس سر کو ہے یاں آج غرور تاج وری کا


کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نو حہ گری کا






دلی کی بربادی کا غم


بقول ڈاکٹر غلام حسن


” شاعروں نے دل کے استعارے میں اس عہد کے سیاسی اور سماجی احوال کو سمو کر بڑے بلیغ کنایے سے کام لیا ہے۔ جس طرح انسانی جسم کی ساری نقل و حرکت کا مرکز و محور دل ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک سلطنت کا مرکز و محور اس کا دارالحکومت ہوتا ہے۔ زیر نظر دور میں ہندوستان کا مرکز سلطنت شہر دلی تھا۔ دلی جو صدیوں سے اس ملک کے دل کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔۔۔ دلی کی تباہی کو شاعروں نے کنایتاً دل کی ویرانی و بربادی سے تشبیہ دے کر سارے جسم یعنی کل ملک کی تباہی کی داستان بیان کی ہے۔“ میر نے دوسرے شعراء کی طرح یہ تمام خونی واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ میر کی شاعری پر خون کے یہ دھبے آج تک نمایاں ہیں۔


دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے


جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی


خاک بھی سر پر ڈالنے کو نہیں


کس خرابے میں ہم ہوئے آباد


دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انہیں


تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج و تخت کا





سادگی، خلوص، صداقت





میر کو خطاب اور گفتگو کا انداز بڑا پسند ہے۔ کبھی وہ خود سے مخاطب ہو کر ”باتیں “ کرتے ہیں اور کبھی کسی دوسرے شخص سے۔ کبھی ان کا تخاطب بلبل سے ہے اور کبھی شمع و پروانہ سے۔ ان تمام حالتوں میں شعر میں بات چیت اور بے تکلفی کا رنگ بہر حال قائم رہتا ہے۔ ایک مانوس اور محبت بھری آواز کانوں سے ٹکراتی ہے جو اپنے پیرایہ ادا کی کشش سے قاری یا سامع کو فوراً اپنے حلقہ اثر میں لے لیتی ہے اور وہ خود بخود میر صاحب کی ان بے ساختہ اور پر خلوص ”باتوں“ سے لطف اندوز ہونے لگتا ہے۔


چلتے ہو تو چمن کو چلیے سنتے ہیں کہ بہاراں ہے


پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد و باراں ہے


ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا


آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا


میں جو بولا کہا کہ یہ آواز


اُسی خانہ خراب کی سی ہے


بارے دنیا میں رہو غمزدہ یا شاد رہو


ایسا کچھ کرکے چلو یاں کہ بہت یاد رہو






میر کا طنز


میر کا طنز ان کی طبیعت کا آئینہ ہے۔ جب کوئی بات طنز کے ساتھ کہتے ہیں تو اس سے محض بے تکلفی نہیں ٹپکتی بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس عالم یا اس تجربہ سے گزر چکے ہیں۔ ان کا طنز اس شدید اور عمیق تعلق کا نتیجہ ہے جو بے تکلفی کے بعد ہی پیدا ہوتا ہے اور پھر عمر بھر قائم رہتا ہے۔ ان کے طنز میں ایک مدہم سی تلخی ہوتی ہے جو پختہ مغزی کی علامت ہوتی ہے۔ ان کے طنز میں غالب کی تیزی کی جگہ ایک عجب پرکیف نرمی ہوتی ہے۔


ہوگا کسو دیوار کے سائے تلے میں میر


کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو


عشق کرتے ہیں اس پری رو سے


میر صاحب بھی کیا دوانے ہیں


حال بد گفتنی نہیں میرا


تم نے پوچھا تو مہربانی ہے






تشبیہات و استعارات


میر نے اپنے شیوہ گفتار کو زیادہ موثر اور دلکش بنانے کے لئے تشبیہ و استعارے کا بڑے سلیقے سے استعمال کیا ہے۔ یہ تشبیہات مردہ نہیں بلکہ ان کے اندر زندگی دوڑتی ہوئی نظرآتی ہے۔ اس لیے کہ ان کے خالق کے خون میں گرمی اور حرارت ہے اور وہ پوری صداقت اور پورے فنی خلوص سے اپنی زندگی بھر کے تجربات و تاثرات کو ان تشبیہات و استعارات کی صورت میں پیش کررہا ہے۔ ان میں کہیں بھی تصنع یا بناوٹ کا احساس تک نہیں ہوتا۔


شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے


دل ہوا ہے چراغ مفلس کا


نازکی اس کے لب کی کیا کہیے


پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے


میر ان نیم باز آنکھوں میں


ساری مستی شراب کی سی ہے


کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے


اُس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے


بس اے میر مژگاں سے پونچھ آنسوؤ ں کو


تو کب تک یہ موتی پروتا رہے گا






ترنم اور موسیقیت


میر کے شاعرانہ انداز کی غنائیت اور موسیقیت اپنے اندر فنی دلکشی کے بہت سے پہلو رکھتی ہے۔ میر کے اندازکی نغمگی اور ترنم مسلم ہے۔ اور یہی میر کی عظمت کا راز ہے۔ ان کا کمال فن یہ ہے کہ وہ مختلف خیالات کے اظہار کے لیے مختلف بحروں کا انتخاب کرکے نغمگی پیدا کرتے ہیں۔ فارسی مروجہ بحروں کے استعمال کے ساتھ ساتھ میر نے ہندی کے پنگل کو اردو غزل کے مزاج کا حصہ بنا کر ہم آہنگی کی صورت دینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ا س کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی شاعری میں بڑی کیف آور اور اثر انگیز غنائیت و موسیقی پیدا ہوتی ہے۔


پتا پتا ، بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے


جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے


چلتے ہو تو چمن کو چلیے سنتے ہیں کہ بہاراں ہے


پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد و باراں ہے






تصوف


میر کی شاعری کے فکری عناصر میں متصوفانہ رنگ خاص طور پرقابل ذکر ہے۔ ان کے باپ اور چچا صوفیانہ مزاج کے مالک تھے اور رات دن جذب و مستی کی کیفیات میں سرشار رہتے تھے۔ میر نے ان بزرگوں کی آنکھیں دیکھی تھیں۔ وہ بھلا کس طرح صوفیانہ تجربہ سے الگ رہ سکتے تھے۔ ان کے ہاں تصوف کا تجربہ محض روایتی نہیں ہے یہ رسمی بھی نہیں ہے، اس تجربے نے میر کے ذہن و فکر کی تہذیب پر گہرے اثرات مرتسم کیے ہیں۔ وہ زندگی کو کسی عام انسان کی طرح نہیں دیکھتے، ان کی نظر صاف دل صوفی کی نظر ہے۔


موت اک ماندگی کا وقفہ ہے


یعنی آگے چلیں گے دم لے کر


سرسری تم جہان سے گزرے


ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا






حکیمانہ انداز


تصور محبوب


یہ بات تو طے ہے کہ میر نے ایک گوشت پوست کے زندہ و متحرک محبوب سے عشق نہیں ، بھرپور عشق کیا تھا۔ اور محبوب سے ان کے احساسِ جمال ، قوتِ تخیل او ر تصو ر حسن پر روشنی پڑتی ہے۔ ان کا محبوب خود حسن و نور کا منبع ہے اور روشنی کی طرح شفاف۔ میر کا محبوب صرف روشنی ہی نہیں بلکہ جسم، خوشبواور رنگ و بو کا پیکر بھی ہے۔ وہ مادی کثافتوں سے منزہ اور حسن محض ہے۔


ان گل رخوں کی قامت لہکے ہے یوں ہوا میں


جس رنگ سے لچکتی پھولوں کی ڈالیاں ہیں


کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے


اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے


اس عہد میں الہی محبت کو کیا ہوا


چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا






تصور عشق


میر کے ہاں عشق آداب سکھاتا ہے ۔ محبوب کی عزت و تکریم کا درس دیتا ہے۔ اگرچہ اس کا انجام ہمیشہ المیاتی اور دردناک ہوتا ہے پھر بھی میر کو اس عشق سے پیار ہے۔ یہ عشق ان کی زندگی کا حاصل ہے۔ اسی عشق سے میر نے زندگی کا سلیقہ اورحوصلہ سیکھا ہے۔ اسی عشق نے ان کی زندگی میں حرکت و عمل اور چہل پہل پیدا کی۔میر کے خیال میں زندگی کی ساری گہما گہمی اور گونا گونی اسی عشق کی وجہ سے ہے۔ اگر عشق نہ ہوتا تو یہ کار خانہ قدرت بے کار ، خاموش ، بے حرکت اور بے لذت ہوتا۔تصور عشق کے حوالے سے ان کے نمائندہ اشعار درج ذیل ہیں۔


دور بیٹھا غبار میر اس سے


عشق بن یہ ادب نہیں آتا


محبت ہی اس کارخانے میں ہے


محبت سے سب کچھ زمانے میں ہے


ہم طور ِ عشق سے واقف نہیں ہیں لیکن


سینے میں جیسے دل کو کوئی ملا کرے ہے






سہلِ ممتنع


میر کی سہل ممتنع کے بارے میں اثر لکھنوی کہتے ہیں کہ


” زندگی کا شائد ہی کوئی پہلو ہو جس کی مصوری میر نے بہترین الفاظ میں اور موثر ترین پیرائے میں نہ کی ہو ان کے اشعار سہل ممتنع ہیں۔“


سرسری تم جہان سے گزرے


ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا


سب پہ جس بار نے گرانی کی


اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا


سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا


مستند ہے میرا فرمایا ہوا






احساس برتری


میر کی شاعری کا ایک مخصوص رنگ ہے اور انداز شعر گوئی کی کیفیات ہیں جس نے تما م شاعروں کو بے حد متاثر کیا اور سارے شاعروں نے اس رنگ میں شعر کہنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے ۔ اس لئے میر احساس برتری کو سامنے لاتے ہوئے کہتے ہیں کہ


سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا


مستند ہے میرا فرمایا ہوا


گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر


یہ ہماری زبان ہے پیارے


پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ


مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں


بقول سید عبداللہ ،


” بعض صاحب کمال ایسے ہوتے ہیں جن کے فن کی نمایاں خصوصیت نہ صرف اپنے دور کو متاثر کرتی ہے بلکہ مستقبل میں بھی لوگ ان کی طرز خاص کو مانتے ہیں میر بھی ایسے ہی صاحب کمال ہیں۔“






مجموعی جائزہ


مولوی عبدالحق فرماتے ہیں کہ


” میر تقی میر سرتاج شعرائے اردو ہیں ان کا کلام اسی ذوق و شوق سے پڑھا جائے گا جیسے سعدی کا کلام فارسی میں، اگر دنیا کے ایسے شاعروں کی ایک فہرست تیار کی جائے جن کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا تو میر کا نام اس فہرست میں ضرور داخل ہوگا۔“


بقول رشیداحمد صدیقی، ” غزل شاعری کی آبرو ہے اور میر غزل کے بادشاہ ہیں۔“


ایک اور جگہ لکھتے ہیں،


”میر کی بات دل سے نکلتی ہے اور سامع کے دل میں جگہ کر لیتی ہے۔“


بقول شیر محمد خان ابن انشاء


اب قربت و صحبت یار کہاں


لب و عارض و زلف و کنار کہاں


اب اپنا بھی میر سا عالم ہے


ٹُک دیکھ لیا جی شاد کیا


اک بات کہیں گے انشاء جی


تمہیں ریختہ کہتے عمر ہوئی


تم ایک جہان کا علم پڑھے


کوئی میرسا شعر کہا تم نے


یا


دل پہ جو بیتے سہہ لیتے ہیں اپنی زباں میں‌ کہہ لیتے ہیں


انشاء جی ہم لوگ کہاں اور میر کا رنگ کلام کہاں


فقیرانہ آئے صدا کر چلے


میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے


جوتجھ بن نہ جینے کوکہتے تھے ہم


سو اس عہد کو ہم وفا کر چلے


بہت آرزو تھی گلی کی تری


سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے


پرستش کی یاں تک ٰکہ اے بت تجھے


نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے


جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی


حق بندگی ہم ادا کر چلے


گئی عمر در بندِ فکرِ غزل


سو اس فن کو ایسا بڑا کر چلے


کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میر


جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے‘


دعاگو جہانگیر خان لغاری بلوچ


No comments:

Post a Comment

')