عالمِ نزع میں اب تیرہ شبی لگتی ہے
آج سورج کی ہر اک بات کھری لگتی ہے
چاندنی حسن کا بازار لگا ہو گویا
مجھ کو یہ تاروں بھری رات بھلی لگتی ہے
ایک ٹوٹا ہوا پیمانہ لئے ہاتھوں میں
روز آتی ہے سحر روز نئی لگتی ہے
موت سے اب کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا
اب مجھے اس کی ہر اک بات بُری لگتی ہے
یہ جو مٹی سے نکلتے ہیں گلابی چہرے
اُسی فنکار کی سب کاریگری لگتی ہے
دن کی قسمت میں بس ایک یہی سورج ہے
جو سمجھتے ہیں انہیں رات غنی لگتی ہے
یہ جو ہر وقت یوں بولائے ہوئے پھرتے ہو
ہو نہ ہو یہ تو وہی دل کی لگی لگتی ہے
جسم و دل جس کےلئے سارے زمانے سے لڑے
اب اُسی بات پہ دونوں میں ٹھنی لگتی ہے
اب تو ہر شہر ترا شہر نظر آتا ہے
اب تو ہر ایک گلی تیری گلی لگتی ہے
دل کو کس کس سے کہاں تک میں بچائے رکھتا
ہر حسیں آنکھ یہاں جادو بھری لگتی ہے
دل کے جانے کا ہی خطرہ تھا مجھے پہلے پہل
عشق میں اب تو مِری جاں پہ بنی لگتی ہے
اس سے بڑھ کر کوئی تعریف بھلا کیا ہو گی
اچھی صورت ہے نگاہوں کو بھلی لگتی ہے
دل کی بے چینی تجھے پا کے ذرا کم نہ ہوئی
اب بھی دنیا میں کسی شے کی کمی لگتی ہے
سانس لینے میں جو اک لطف تھا باقی نہ رہا
زندگی اب فقط اک دردِ سری لگتی ہے
آپ چاہیں تو زمانہ کو بدل کر رکھ دیں
آپ کے ہاتھ میں جادو کی چھڑی لگتی ہے
شہر وحشت ابھی آباد رہے گا کچھ دن
ابھی قسمت میں مری دربدری لگتی ہے
No comments:
Post a Comment