وقت کوئی شام نہیں
جسے وحشت سے ڈھانپا جا سکے
نہ کوئی گیت، جس کی لے
ہمارے ہونٹوں کی گرفت میں ہو
یہ ایک لا متناہی لا تعلق ہے
وقت ٹھہرا رہتا ہے
ان زمینوں پر
جہاں سے نئے قافلے نکل پڑتے ہیں
وقت گزاری کے کٹھن سفر پر
گزشتہ بہت پیچھے رہ گیا
جہاں تک کوئی سڑک نہیں جاتی
گاڑی کی کھٹ کھٹ سے
شہر کی ویرانی کہاں کم ہوتی ہے
مقفل گھروں
اور قہوہ خانوں کی بھنبھناہٹ میں
ساری باتیں تو لوگ کرتے ہیں!
کتابوں کی جلدیں، کاغذوں کا شور
موبائل کے پیغامات
اور وقت گزر جاتا ہے
حالانکہ نہیں گزرتا
بچوں کو سیڑھیاں چڑھا چکنے کے بعد
دہلیز پر بیٹھ کر
کسی بے سمت افق کو گھورتے ہوئے؟
حساب کرتے ہوئے
ان خوابوں کا، جو دیکھے
No comments:
Post a Comment