جانے کن رہ گزاروں سے
دوڑے چلے آتے ہیں
لاشیں بھنبھوڑتے، بو سونگھتے
بیٹھ گئے ہیں لوگ
کہ بیٹھے ہوؤں کو کاٹتے نہیں!
ویرانی کے عقب میں
راستوں اور شاہراہوں کے کہرام
اور جلتی بجھتی روشنیوں کے تعاقب میں
پھٹے ہوئے حلق کے ساتھ
گاڑیوں کے ساتھ ساتھ بھاگتے ہیں
دیوار پر
ٹانگ اٹھا چکنے کے بعد
معاف کیجئے گا
فتح علی خاں صاحب!
آپ کا الاپ، کانوں میں جم گیا ہے
مرکیاں ٹوٹتی ہیں
ہم رخصت ہو رہے ہیں
جینے کے جواز سے دست بردار
پٹاخوں سے پتلونیں بچاتے
پھدکتے پھرتے ہیں
ہماری قومی موسیقی
کافور کی مہک سے بھی خالی ہے
سڑاند ہے چہار جانب
اور بھونکنے کی آوازیں
بے سر، بے تال
جان کی امان پاؤں
تو سیدھا آپ ہی کی طرف آؤں گا
No comments:
Post a Comment