آج سے کچھ برس پہلے مجھے زندگی کے مطلب کے بارے میں نہیں پتا تھا..زندگی کیا ہے کیوں ہے کچھ اندازہ نا تھا,بس جیسے گذر رہا تھا ویسے گذار رہے تھے..بلکل ایک کٹھپتلی کی طرح!!! پھر زندگی نے اپنا موڑ لیا دنیا کے رنگ ڈھنگ ,اصلیت اور اپنا مطلب سمجھانے کے لیے گھر سے الگ کیا.. ایک ایسی نئی دنیا سے متعارف کرایا جس سے ہم بچپن سے نااشنا تھے. نئے لوگ, نئی جگہ, نئے طریقے..پُرانا تھا تو بس اپنا آپ!!! تصور کی دنیا سے حقیقی دنیا کا سفر بہت تلخ ہوتا ہے.. دوست احباب بھی تھے پر دوستی میں وہ مخلصی کہاں جو پہلے ہوا کرتی تھی .. وہ خالص چیزین اور مخلص لوگ اس دور میں رہے کہاں ہیں.پهر بهی بس دل کو تسلی دے کر اور بہِلا کر ایک دوسرے کے ساتھ اٹکے ہوئے ہیں کہ شاید اس سے بے سکونی اور بے چینی ختم ہوجائے.. شاید اسی میں سکون مل جائے.. رشتے ناتے بھی ایسے ہوگئے..اب تو گھر والوں سے بهی صرف دعا سلام ہوتی ہے اور آگے بات کرنے کے لئے کچھ نہیں ہوتا.. اورر رب؟؟؟؟؟؟ اسے تو ہم کب کا بھلا بیٹھے ہیں..اور حیرت ہے ہم نے کھبی اسے یاد کرنے کوشش ہی نہیں ..وہ ناراض هے تبھی تو زندگی میں خالی پن اور امتحان ہیں .. ہم نے کھبی اسے منانے کی کوشش ہی نہیں کی تو کیسے ہوتا کہ ہماری زندگی گلزار بن جائے؟؟ زندگی تو نام ہی ہے امتحان کا ہر گھڑی ہر لمحہ ایک امتحاں ہے.. اب یہ تو ہم پر ہے کہ ہم اس امتحاں میں کس طرح کامیاب ہوتے ہیں.. (زندگی گلزار ہوتی نہیں بنانی پڑتی ہے) خود کو پُراعتماد کرکے امتحانون کو پار کرکے اور سب سے ضروری رب پے یقین رکھ کہ.. کیونکہ جو وہاں سے دربدر ہوا اسے دنیا میں بھی در در کی ٹھوکریں ملیں گی...ایک پھول جو صرف بہار میں جینا جانتا ہو وہ گرمی سردی اور خزان میں مرجھا جاتا ہے.. اسے جینے کے لیے پھر بہار کا انتظار کرنا پڑے گا.. ہم بھی دنیا میں ایک گلستان کے پھول کی طرح ہیں..اگر ہم مشکلوں کا سامنا نہیں کرینگے اور ان سے بھاگنے کی کوشش کرینگے تو ہم بھی اس پھول کی طرح مرجھا جائینگے اور پھر زندگی تو ہوگی پر اس میں گلزار کا وجود نہیں ہوگا
No comments:
Post a Comment