معاف کر دینے سے آپ کسی کے جرم کی توعیت کو کم نہی کر دیتے۔ معاف کرنا بس دو باتوں پر منحصر ہے۔ ایک تو یہ کہ اپنی تکلیف کا بدلہ نہ لو۔ اور دوسرا کہ اس انسان کی طرف سے اپنا دل صاف کر لو۔ کوئ بغض نہ رکھو۔
اور پھر رب کہتا ہے کہ صبر کرو۔
اگر معاف کر ہی دیا ہے تو بھول بھال کر آگے کیوں نہ بڑھ جائیں؟ دل صاف کر ہی لیا ہے تو اسے صبر پہ کیوں آمادہ کرتے رہیں؟
کیونکہ اللہ چاہتا ہے کہ تم تکلیف کو بھولتے بھولتے اپنے رب کی بڑائ حفظ کر لو۔
اللہ کہتا ہے جتنی تکلیف تم کو تمھارے مجرم سے پہنچی ہے اتنی ہی اسے واپس لوٹا دو۔ تمھے بھی میں نے ویسا ہی انسان بنایا ہے جیسا کہ تمھارے مجرم کو۔ تم کمزور نہی ہو۔ تمھارے اندر بھی وہ ساری صلاحیتیں ہیں۔ جاؤ اور اپنا بدلہ لے آؤ۔
"جبرائیل (ع): اگر آپ(ص) چاہیں تو ان لوگوں کو طائف کے دونوں پہاڑوں کے بیچ میں کچل دیا جائے گا" - رب کی طرف سے پہلی پیشکش یہی ہوتی ہے۔
اگر آپ بدلہ لینے کی ٹھان لیں تو اللہ آپ کواس کے لئے سارے ضروری وسائل اور سمجھ بوجھ دے دے گا۔
مگر پھر اللہ دیکھتا ہے کہ اس کا بندہ زیادہ زخمی ہے۔ چوٹیں گہری ہیں اور ان سے اٹھنے والی تکلیف بھی زیادہ ہے۔ اپنے معاملات کی طرح اپنے آپ کو بھی نہیں سنبھال پا رہا۔
تو پھر رب کہتا ہے کہ اپنا معاملہ میرے سپرد کردو۔ اور اپنے دل سے بدلے اور بغض کی تھکن کو دور کرو۔
تمھے آرام کی ضرورت ہے۔ تمھارے معاملات اب میری رضا سے حل ہونگے۔ اور میری رضا میں ہی تمھاری رضا ہونی چاہیئے۔ مجھے تمھاری تکلیف کا پتہ ہے۔ مجھے مت بتاؤ کہ تم اب اپنے مجرم کو کس حال میں دیکھنا چاہتے ہو۔
صبر کرو کہ اب میں اپنے بھٹکے ہوئے غلام کی رسی کو کھینچنے لگا ہوں۔ وہ بھی میرا بندہ ہے۔ میں نے اسے بھی ستر ماؤں سے زیادہ محبت دی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ واپس میری طرف رجوع کرے۔ میں چاہتا ہوں کہ اسے آزماؤں اپنی محبت سے، اپنے خوف سے، اپنے قہر سے۔ مجھ کو پتہ ہے کہ اس کو کس طرح اور کب احساس دلانا ہے اس کے جرم کا۔ تم اس وقت کا انتظار کرو۔ جب سب آوازیں بند ہو جائیں گی اور اس کا ضمیر صرف اپنے رب کی آواز سنے گا۔
"محمد (ص) : کیا پتہ ان کی نسلوں میں سے کوئ اللہ کا نام لینے والا پیدا ہو جائے" ۔
ہاں اگر وہ میری رحمت سے دور چلا گیا ہوا تو اس کے گناہ کا اس سے بدتر بدلہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ پھر میں اس کے دل پر مہر لگا دوں گا، نشانرہی کے لئے کہ یہ دل اب اپنے رب کی آواز نہی سن پائے گا۔ حتیٰ کہ توبہ کا وقت بھی نکل جائے گا۔
جیسے کوئ مریض اگر ہسپتال کے سٹاف کے ساتھ تعاون نہ کرے تو ہسپتال کے انچارج پھر اسے سمجھاتے ہیں۔ اگر تب بھی مریض اپنی ضد پہ قائم رہے تو اس کا علاج ممکن نہی۔
اگر تم اپنا بدلہ خود لینے نکل پڑو گے تو ممکن ہے کہ حد سے تجاوز کر جاؤ اور اپنے مجرم سمیت اللہ کے نزدیک حیثیت میں کم ہو جاؤ۔
"علی (رضی اللہ): میں تم سے زاتی دشمنی اور غصے کی بنیاد پہ نہی لڑوں گا، صرف اپنے رب کیلئے لڑوں گا"۔
لیکن پھر آپ دیکھتے ہیں کہ دنیا آپ کے مجرم کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس کی حوصلہ افزائ کر رہی ہے۔ یہ دیکھ کے آپ کا ایمان کمزور پڑتا ہے۔ صبر ٹوٹتا ہے۔ اور رب سے شکوہ بڑھتا جاتا ہے۔
جان رکھیں ابو جہل کو بھی حوصلہ افزائ دینے والے ہزاروں میں تھے۔
اللہ اپنے ایک مجرم بندے کے ساتھ ان چند ہزار لوگوں کو بھی آزما لیتا ہے جو رب کی آواز کے ہوتے ہوئے اپنی آوازوں کا شور اس مجرم کے کانوں میں ڈالتے رہتے ہیں۔ کسی اور کے ایمان کے راستے میں مخل ہونے والے اپنی راہ بھی کھو بیٹھتے ہیں۔
جو بھی یہ شور سننے کھڑا ہو جائے گا اور جتنی دیر سنے گا، اس کا ایمان اللہ کی آواز سے مانوسیت کھو دے گا۔ اگر صبر ہی تمھارا آخری فیصلہ ہے تو پھر اللہ کی محفل میں رہو اور صرف اللہ کی باتیں سنو۔
بڑے بزرگ اکثر وہ باتیں کرتے ہیں جو اللہ آپ کو سنانا چاہتا ہے۔ وہ اکثر آپ سے کہتے ہیں نا کہ تکلیف میں زیادہ سے زیادہ استغفار پڑھیں۔انہی باتوں سے تو پتہ چلے گا کہ معاف کرنا تو رب کی صفت ہے۔ انسان کون ہوتا ہے کسی کو بھی معاف کرنے والا۔ اور اگر رب کی طرف سے آپ کو حکم ہوتا ہے کہ اس کے فلاں بندے کو معاف کردو تو کیا آپ نہی سمجھتے کہ آپ کو دنیا میں جنت کی بشارت دی گئ ہے
No comments:
Post a Comment