ہم کبھی کبھی کسی کو اسقدر میسر آ جاتے ہیں
کہ خود کو بھول جاتے ہیں
خود مر جاتے ہیں انکا خیال کرتے کرتے
جینا بھول جاتے ہیں
انکا مداوا کرتے کرتے انکو میسر آتے آتے خود فنا ہو جاتے ہیں اور
آپکے لمحے کو بھی وہ میسر نہ ہوں آنکھیں انتظار میں پتھر ہو جاتی ہیں امید کے جگنو ڈوبنے کو ہوں...
اس اذیت کا کیسے اندازہ ہو سکتا ہے؟؟؟
کے جس پہ اندھا اعتماد کیا جاتا ہے وہ واقعی آپکو اندھا ثابت کر دے..
بیچ راہ پہ لا کے چھوڑ جائے
دل سے جینے کی رمق بھی ختم ہو جاتی ہے ..اور پھر بس ہم دوائیوں کے سہارے سانس لے رہے ہوتے ہیں...
انکی خوشی اور سکون کا تاوان خود کو قربان کر کے ادا کر جاتے ہیں.
No comments:
Post a Comment