تمھاری پرچھاٸ کے تعاقب میں
میں نے وہ گلیاں چن لیں جو بھول بھلیوں
کی جانب گامزن تھیں
تمھارے تعاقب میں نے رستوں کے کانٹوں کو
اپنی ایڑیوں کی نوک پر رکھا
جو میرے تلوٶں میں پیوست ہوگۓ
میں اک بھنور میں ہی گھومتی رہی جس کا کوٸ
مرکز ہی نہ تھا
تمھاری حسرت مجھے پنکھ لگا کر جانے کہاں سے کہاں
لے گٸ ۔
میں نے ہر اس شے میں تمہیں کھوجا جس پر مجھے
ذرا سا بھی گمان گزرا ہو کہ
تمھارے نقش ۔۔تمھاری پرچھاٸ شاید ہی وہاں
پڑی ہو ۔
اور میں ہاتھ بڑھا کر تھام لوں اسے
مگر وہ
محض مدار تھا کہیں ختم ہی نہیں ہو پایا
ان راستوں کی ویرانیوں نے مجھے دور کہیں
اندھیروں میں لا پٹخا۔
تم کہیں نہیں ملی فقط رستے کی دھول سے چہرے کی
رنگت مزید ذرد پڑ گٸ۔
قصوروار ہرگز تم نہیں اے زندگی !!
وہ لڑکی ہی اک" سیارہ "ٹھہری
جس کی قسمت میں مدار کے گرد گردش کرنا تھا
ہاں وہ ایک سیارہ ہے ۔۔
زرد ۔۔ دھول سے اٹا۔۔۔۔اک بےنور سا ہالہ۔۔
No comments:
Post a Comment