تاروں بھری رات میں جب تم اپنے مخملی ہاتھوں سے قندیل کو روشن کرو
وہ یکدم ہی ہمارے اردگرد روشنی کا حصار سا بنا ڈالے
اس روشنی میں
تمہارے چہرے پر اس خوشی کو دیکھ کر مسرور سی
ہوجاٶں ۔پھر ہم دونوں اس قندیل کو
ہواٶں کے سپرد کر کے پرسکون اسکی اڑان کو دیکھتے رہیں
تا حد نگاہ ،
جب تک وہ پرنور سا ہالہ دور کہیں اپنی روشنی
کھو دے۔نظروں سے اوجھل نہ ہو جاۓ۔
اسکے فضا میں اٹھتے ہی چاروں جانب زمین سے اٹھتی
قندیلیں فضاٶں میں مدھر سا شور برپا کردیں ہوا اس روشنی کے
تعاقب میں مسرور ہو جاٸیں
اور ان روشنیوں کو آسمان کی وسعتوں کی جانب دھکیلتی جاٸیں
تاریکیاں جمگما اٹھیں یوں جیسے چاروں طرف جگنوٶں کے گروہ
رقصاں ہوں۔
وہ حسین لمحے وہی قید ہو جاٸیں اور پھر جب کٸ برس بیت
جانے کے بعد ہم وہ یادگار پل محسوس کرکے
فقط مسکرا دیں ۔
یادوں کا انت فقط مسکراہٹ پر ہو۔
No comments:
Post a Comment